ایک لڑکی نے ماں باپ سے چھپ کر شادی کرلی بعد میں جب والدین کو پتہ چلا تو اب وہ دوبارہ اعلانیہ طور پر اور نکاح کرانا چاہتے ہیں کیا انکا دوبارہ نکاح کراناصحیح ہے۔ اور اگر غیر کفؤ میں انعقاد نکاح کیا ہو تو کیا حکم ہے؟
صورت مسئولہ میں اگر لڑکی نے ولی ؍ اولیا کی اجازت و رضامندی کے بغیر اگر واقعۃً غیر کفو میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں ایجاب و قبول کے ساتھ نکاح کرلیا ہو تو ایسا نکاح شرعاً منعقد تو ہوگیا ہے لیکن اولاد پیدا ہونے سے پہلے تک ولی کو عدالت کے ذریعہ یہ نکاح فسخ کرانے کا حق حاصل ہے۔ اور اگر لڑکی کے اولیا اس کے باوجود اس نکاح پر راضی رہیں تو ان کا راضی رہنا شرعاً درست ہے اور اس کے بعد اگر ایسے چھپ کر نکاح کے بعد دوبارہ بطور تشہیر اعلانیہ نکاح کروائیں تو یہ جائز ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(فنفذ نكاح حرة مكلفةبلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا (وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء)."
(كتاب النكاح، باب الولي، ج3، ص55، سعيد)
و فيه :
"(وله) أي للولي (إذا كان عصبة) ولو غير محرم كابن عم في الأصح خانية، وخرج ذوو الأرحام والأم والقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح (ما لم) يسكت حتى (تلد منه) لئلا يضيع الولد وينبغي إلحاق الحبل الظاهر به."
(كتاب النكاح، باب الولي، ج3، ص56، سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144405101552
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن