بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم ملک میں نماز قضا ہونا


سوال

ہم یورپ میں مزدوری کے سلسلے میں آئے ہیں، ادھر اکثر ہماری نماز قضا ہو جاتی ہے تو اس کے متعلق آپ ہماری راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ کسی مسلمان کے لیے  غیر مسلم ملک میں ملازمت کرنا بوقتِ مجبوری اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اسے اطمینان ہو کہ غیر مسلم ملک میں جا کر اسلامی احکامات پر عمل کر سکے گا اور اس ملک میں رائج فواحش اور گناہوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا۔ 

اب جب کہ آپ مزدوری کے لیے ایک غیر مسلم ملک میں منتقل ہو چکے ہیں، تو  آپ پر لازم ہے کہ بہت اہتمام کے ساتھ دینی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اسلامی احکامات میں سب سے پہلے نماز کا حکم ہے، صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نماز کا چھوڑنا بندہ مؤمن اور شرک و کفر کے درمیان (کی دیوار کو ڈھا دیتا) ہے۔ (ترجمہ از مظاہرِ حق)

لہذا کسی صورت میں نماز چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے، غیر مسلم ملک میں اسلامی احکامات پر عمل کرنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ آپ ایسے علاقے میں رہائش اختیار کریں جہاں مسمان رہتے ہوں اور   وہاں مقیم مسلمانوں سے رابطے میں رہیں تاکہ کسی حد تک اسلامی تشخص بحال رہے اور اسلامی احکامات پر عمل کرنا آسان ہو، نیز نمازیں  اپنے وقت میں ادا کرنے کا اہتمام  کریں، اگر کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے نماز قضاء  ہو جائے، تو فرصت ملتے ہیں نماز ادا کرنا ضروری  ہوگا، البتہ نوکری پر جانے سے قبل دن بھر کی نمازیں پیشگی پڑھ کر نوکری پر جانے سے وہ نمازیں  ادا نہیں ہوں گی، بلکہ ہر نماز کو اس کے وقت میں ادا کرنا ضروری  ہوگا۔

اگر ہو سکے تو با وضو رہیں جیسے نماز کا وقت ہو، کام کے دوران باجماعت یا بغیر جماعت کے صرف فرض ادا کر کے کام میں لگ جائیں۔ آخر بیت الخلاء وغیرہ کا بھی تو وقت ملتا ہے، چند منٹ ادا  فرض کے لیے وقت نکالنا کیا مشکل ہے؟

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله تعالى إن الصلاة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا روي عن عبد الله بن مسعود أنه قال إن للصلاة وقتا كوقت الحج وعن ابن عباس ومجاهد وعطية مفروضا وروي عن ابن مسعود أيضا أنه قال موقوتا منجما كلما مضى نجم جاء نجم آخر وعن زيد بن أسلم مثل ذلك قال أبو بكر قد انتظم ذلك إيجاب الفرض ومواقيته لأن قوله تعالى كتابا معناه فرضا وقوله موقوتا معناه أنه مفروض في أوقات معلومة معينة فأجمل ذكر الأوقات في هذه الآية وبينها في مواضع أخر من الكتاب من غير ذكر تحديد أوائلها وأواخرها وبين على لسان الرسول صلى الله عليه وسلم تحديدها ومقاديرها".

(‌‌‌‌سورة النساء، باب مواقيت الصلاة، 3/ 247، ط: دار إحياء التراث العربي)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌أبي سفيان قال: سمعت ‌جابرا يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: « إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة ".

(‌‌‌‌كتاب الإيمان، باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة، 1/ 62 ، ط: دار الطباعة العامرة)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"حدثنا عبد الله بن بريدة، عن أبيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: العهد الذي بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر".

(كتاب إقامة الصلاة، والسنة فيها، باب ما جاء فيمن ترك الصلاة، 1/ 342 ، ط: دار إحياء الكتب العربية)

وفيه أيضاً:

"695...عن أنس بن مالك، قال: سئل النبي عن الرجل يغفل عن الصلاة أو يرقد عنها، قال: "يصليها إذا ذكرها...

696... عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها".

(‌‌أبواب مواقيت الصلاة، باب ‌من ‌نام ‌عن الصلاة أو نسيها، 1/ 227 )

الدر المختار میں ہے:

"(وقضاء الفرض والواجب والسنة فرض وواجب وسنة) لف ونشر مرتب، وجميع أوقات العمر وقت للقضاء إلا الثلاثة المنهية كما مر".

(حاشية ابن عابدين ،‌‌كتاب الصلاة،  ‌‌باب قضاء الفوائت،  2/ 66، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102902

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں