بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر سید کا اپنے آپ کو قریشی کہنے کا حکم


سوال

میرا نام حسین شاہ ہے،  لیکن میں سید نہیں ہو ں ،تو کیا   میرے لیے اپنے آپ کو  قریشی  کہنا  مناسب ہے یا گناہ ہے؟

جواب

 صورت مسئولہ میں اگر سائل قریش کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا تو اس کا اپنے آپ کو قریشی کہنا ناجائزا و رگناہ ہے اور اسی طرح اگر وہ سید نہیں ہے تو اس کا اپنے آپ کو سید کہنا بھی ناجائزہے۔نیز ہر قریش قبیلے سے تعلق رکھنے والا سید نہیں ہوتا ،اس کے بارے  میں مختصر سی  وضاحت درج ذیل ہے:

سیّد کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر ،حضرت عباس، حضرت عقیل اورحضرت حارث  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی اولاد  میں سے ہیں، ان سب پر صدقہ حرام ہے، لیکن عام عرف میں صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی اولاد پر سید کا اطلاق ہوتا  اور یہ آلِ  رسول  صلیٰ اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جب کہ قریش میں بعض خاندان سید اور بعض غیر سید  ہیں۔

لہذا اگر  کسی شخص کا تعلق قریش کے خاندان میں سے حضرت حسن اور حسین کی نسل سے ہے تو اس  کا اپنا نام کے ساتھ  "سید"  لگانا بالاتفاق درست ہے، اسی طرح اگر  اس کا نسب  مذکورہ پانچ خاندانوں میں کسی سے ملتا ہے تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ "سید" لگاسکتا ہے، البتہ  عرف میں چوں کہ صرف حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے لیے یہ لفظ خاص ہوچکا ہے، اس لیے نہ لگانا بہتر ہے۔ لیکن اگر اس کا سلسلہ نسب ان پانچ خاندانوں کے علاوہ قریش کے اور خاندانوں سے ملتا ہے تو اس کا اپنے نام کے ساتھ "سید" لگانا درست نہیں ہے۔ اور اگر  اس کا نسب قریش کی کسی اور شاخ سے ثابت ہے تو سید نہ ہونے کے باوجود اپنے آپ کو قریشی کہہ سکتا ہے۔

صحيح مسلم  میں ہے:

"(2408) حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعا عن ابن علية، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت خلفه لقد لقيت، يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا، فلا تكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا، بماء يدعى خما بين مكة والمدينة فحمد الله وأثنى عليه، ووعظ وذكر، ثم قال: " أما بعد، ألا أيها الناس فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين: أولهما كتاب الله فيه الهدى والنور فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به " فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي» فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم."

(صحيح مسلم ،‌‌باب: من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه،7/ 122 ط:دارالطباعۃ العامرۃ)

الحاوی  للفتاویٰ میں ہے:

"إن اسم الشريف كان يطلق في الصدر الأول على كل من كان من أهل البيت سواء كان حسنيًا أم حسينيًا أم علويًا، من ذرية محمد بن الحنفية وغيره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفريًا أم عقيليًا أم عباسيًا، ولهذا تجد تاريخ الحافظ الذهبي مشحونًا في التراجم بذلك يقول: الشريف العباسي، الشريف العقيلي، الشريف الجعفري، الشريف الزينبي، فلما ولي الخلفاء الفاطميون بمصر قصروا اسم الشريف على ذرية الحسن والحسين فقط، فاستمر ذلك بمصر إلى الآن، وقال الحافظ ابن حجر في كتاب الألقاب: الشريف ببغداد لقب لكل عباسي، وبمصر لقب لكل علوي، انتهى.
ولا شك أن المصطلح القديم أولى وهو إطلاقه على كل علوي وجعفري وعقيلي وعباسي، كما صنعه الذهبي، وكما أشار إليه الماوردي من أصحابنا".

(الحاوی للفتاوی ،العجاجة الزرنبية في السلالة الزينبية،2 / 39 ط:دارالفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں