کن صورتوں میں گالی دینا جائز ہے؟
واضح رہے کہ گالی دینا گناہ کبیرہ ہے،اور یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ،بل کہ گالی دینے کی عادت تو منافق کی نشانی ہے،چناچہ حدیث شریف میں منافق کی ایک نشانی یہ بتلائی گئی ہے کہ جب وہ جھگڑا کرتا ہے تو گالی گلوچ کرتا ہے۔
مشكاة المصابيح ميں ہے:
"عن ابن مسعود - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سِباب المؤمن فسوق، وقتاله كُفر."
(كتاب الآداب، باب حفظ اللسان، الفصل الأول، ج:3، ص:1356، ط: المكتب الاسلامي)
ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”کسی مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کو قتل کرنا کفر ہے“۔
وفيه ايضاً:
"وعن عبد الله بن عمرو أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أربع من كن فيه كان منافقا خالصا ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتى يدعها إذا اؤتمن خان وإذا حدث كذب وإذا عاهد غدر وإذا خاصم فجر»"
(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق ، الفصل الأول، ج:1، ص:23 ، ط: الكتب الاسلامي)
ترجمہ:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جس شخص میں چار باتیں ہوں گی وہ پورا منافق ہے اور جس میں ان میں سے کوئی ایک بات بھی پائی جائے گی تو سمجھ لو) اس میں نفاق کی ایک خصلت پیدا ہوئی تا وقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے (اور وہ چار باتیں یہ ہیں) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب قول و اقرار کرے تو اس کے خلاف کرےاور جب جھگڑے تو گالیاں بکے۔“(مظاہر حق)
امداد الفتاوی میں ہے:
”سوال:زید کہتا ہے کہ گالی فحش مغلظ کے بدلے گالی دینا جائز ہے اور ثابت ہے کتاب اللہ سے اور سنت رسول مقبول ﷺ سے اور بکر کہتا ہے کہ گالی مذکورہ کے بدلہ گالی دینا چاروں اماموں کے عقائد کے برخلاف ہے ہرگز جائز نہیں؛ بلکہ حرام ہے اگر جائز ہوتا تو فقہاء تعزیر کیوں مقرر کرتے اور زید مذکور جب تک اپنی توبہ کا اظہار نہ کرے اس کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں آیا بروئےشرع شریف کے ان ہر دو صاحبان میں کس کا قول معتبر ہے اور کس پر تو بہ کرنا واجب ہے؟
جواب :حدیث میں علاماتِ منافقین سے فحش گالیاں دینے کو فرمایا ہے: وإذا خاصم فجر اس سے غیر مشروع ہونا فحش مغلظ گالی کا ثابت ہوا اور غیر مشروع پر اصرار کر نا فسق ہے ،اسی طرح غیر مشروع کو مشروع کہنے والا بدعتی ہے،اور مبتدع کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ ہے،البتہ اگر توبہ کرلے تو فسق و بدعت مرتفع ہوجاوے گااور اگر کسی کو آيةجزاء سيئة سيئة مثلها سے شبہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ اس عموم سے امور غیر مشروع مخصوص و مستثنی ہیں؛ چنانچہ ظاہر ہے کہ اگر کوئی کسی کے ساتھ بد فعلی کرلے تو جزاء میں بد فعلی کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ، اسی طرح ایسی بدقولی بھی مستثنی ہے۔
(مسائل شتی، ج:10، ص:37، ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100215
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن