بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گیمز کھیلنے پر پوائنٹ کا ملنا اور جانا جواہے یانہیں؟


سوال

میں ایک آن لائن گیم کھیلتا ہوں، جس میں میں چار پلیئر کے ساتھ کھیلتا ہوں، مجھے جیتنے پر کچھ پوائنٹ  ملتے ہیں، اور ہارنے پر میرے پوائنٹ جاتے ہیں، کیا یہ جوا کے عمل میں آنے کی وجہ سے حرام ہے ؟اگر یہ جواہو نے کی وجہ سے حرام ہے ،تومیں نے آپ کے ایک فتوی کو پڑھا کہ گیمز کی آئی ڈی اصل میں نہیں، بلکہ فرضی ہے؛ اس لیے اس کو بیچا نہیں جا سکتا،تو پھر اس میں جوا کیسے ہوسکتاہے؟

جواب

واضح رہےکہ جوے کے لیےضروری ہےکہ جیتنے اور ہارنے والا ،مال کو جیت اور ہار کے ساتھ جوڑدے، یعنی جوے کے لیے دونوں طرف سے مال کاہوناضروری ہے؛لہذا گیم کے دوران جو پوائنٹ جیتنے والے کو ملتے ہیں، وہ چوں کہ شریعت کی نظر میں مال نہیں ہے،بلکہ محض ایک فرضی پوائنٹ ہوتے ہیں؛لہذا گیم کے دوران پوائنٹ کے آنے جانے کو جوا نہیں کہاجائےگا، تاہم گیم میں وقت اور مال کاضیاع، تصویروں کی بہتات،  فرائض  کی ادائیگی میں کوتاہی وغیرہ ہوتی ہے؛لہذا آن لائن گیم کھیلنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"‌القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي ‌القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص."

(كتاب الحظر والإباحة، ٤٠٣/٦، ط:سعيد)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"القمار في عرف زماننا ‌كل ‌لعب ‌يشترط ‌فيه غالبا أن يأخذ الغالب من الملاعبين شيئا من المغلوب، كالنرد والشطرنج وأمثالهما."

(كتاب الحدود، ٢٣٨٩/٦، ط:دار الفكر)

علامہ جرجانی نے کتاب التعریفات میں لکھاہے:

"القمار: في لعب زماننا: ‌كل ‌لعب ‌يشترط ‌فيه غالبا من المتغالبين شيئا من المغلوب."

(باب القاف، ١٧٩، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے:

"القمار ‌على ‌زعمهم ‌اسم ‌لما ‌يستحقون ‌به ‌شيئا ‌لم ‌يكن ‌لهم ‌قبل."

(كتاب القسمة، ٢٧١/٥، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقدمنا أول البيوع ‌تعريف ‌المال بما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، وأنه خرج بالادخار، المنفعة فهي ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص كما في التلويح، فالأولى ما في الدرر من قوله المال موجود يميل إليه الطبع إلخ فإنه يخرج بالموجود المنفعة فافهم."

(كتا ب البيوع،باب البيوع الفاسد،٥١/٥،ط:سعيد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"‌‌عند الحنفية: المال: هو كل ما يمكن حيازته وإحرازه وينتفع به عادة، أي أن المالية تتطلب توفر عنصرين 1 - إمكان الحيازة والإحراز: فلا يعد مالا: ما لايمكن حيازته كالأمور المعنوية مثل العلم والصحة والشرف والذكاء، وما لا يمكن السيطرة عليه كالهواء الطلق،وحرارة الشمس وضوء القمر. 2 - إمكان الانتفاع به عادة: فكل ما لا يمكن الانتفاع به أصلا كلحم الميتة والطعام المسموم أو الفاسد، أو ينتفع به انتفاعا لا يعتد به عادة عند الناس كحبة قمح أو قطرة ماء أو حفنة تراب، لا يعد مالا، لأنه لا ينتفع به وحده. والعادة تتطلب معنى الاستمرار بالانتفاع بالشيء في الأحوال العادية، أما الانتفاع بالشيء حال الضرورة كأكل لحم الميتة عند الجوع الشديد (المخمصة) فلا يجعل الشيء مالا، لأن ذلك ظرف استثنائي. وتثبت المالية بتمول الناس كلهم أو بعضهم (2)، فالخمر أو الخنزير مال لانتفاع غير المسلمين بهما. وإذا ترك بعض الناس تمول مال كالثياب القديمة فلا تزول عنه صفة المالية إلا إذا ترك كل الناس تموله."

(‌‌القسم الثاني: النظريات الفقهية،‌‌الفصل الثاني: الأموال،٢٨٧٥/٤،ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها."

(کتاب البیوع،ج:4،ص:518،ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں