بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گندم کے بدلے آٹے کی فروخت


سوال

 ہم نے گندم خرید کر   اس کو پیس لیا لیکن آٹے کا ذائقہ خراب تھا، میری ایک بہن نے دوسری شادی شدہ بہن کو فون کیا، کہ ہم خراب ذائقے والا آٹا دوکاندار کو واپس کر رہے ہیں، اگر آپ لینا چاہتے ہیں تو آپ لے لیں اور اس کے بدلے ہمیں کٹائی کے بعد اتنی مقدار گندم دے دیں، پھر جب بہن نے مجھے یہ بات بتا دی ،تو میں نے کہا کہ اس میں سود کا خدشہ ہے، اس لیے میں   پوچھ رہا ہوں، کہ ان آٹے  کے بدلے میں ہم ان سے گندم  لیں؟ یا آٹا لے لیں؟ یا ان سے پیسے  لیں؟ متعین وقت کی کوئی شرط نہیں لگائی ہے، تاہم تقریبا 40 یا 45 دن کی مدت واپسی میں گزر جائے گی۔

جواب

گندم کو گندم اور آٹےکے بدلے ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ،البتہ رقم کے بدلے ادھار فروخت کرنا جائز ہے،لہذا آپ  اسی گندم کو فروخت کرکے  اسی پیسوں کے بدلے گندم لے سکتے ہے، یا آٹا قرض کے طور پر دے دیں پھر بعد میں آٹا یا گندم کی شکل میں واپس لے لیں تو جائز ہو گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

وعن عبادة بن الصامت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تبيعوا الذهب بالذهب ولا الورق بالورق ولا البر بالبر ولا الشعير بالشعير ولا التمر بالتمر ولا ‌الملح ‌بالملح إلا سواء بسواء عينا بعين يدا بيد ولكن بيعوا الذهب بالورق والورق بالذهب والبر بالشعير والشعير بالبر والتمر بالملح والملح بالتمر يدا بيد كيف شئتم» . رواه الشافعي."

(کتاب البیوع،باب الربا، ج:2، ص:858، ط:قدیمی)

 المحیط البرہانی  میں ہے:

وبيع الحنطة بالسويق نظير ‌بيع ‌الحنطة ‌بالدقيق، وبيع الدقيق بالخبز، وبيع الحنطة بالخبز يجوز متساويا ومتفاضلا بعد أن يكون يدا بيد، وهذا لأن المجانسة بين الخبز والحنطة، وإن كانت قائمة من وجه؛ لأن الخبز أجزاء دقيق قد طبخت، فالإتفاق في القدر فائت من وجه؛ لأن أحدهما كيلي والآخر عددي.

وفي مثل هذا لا يجرى الربا فالأصل أن الربا النقد لا يحرم إلا بوصفين، وهو القدر والجنس، ونعني بالقدر الكيل في المكيلات، والوزن في الموزونات، فإذا انفق البدلان جنسا وكيلا، أو وزنا يحرم الفضل، وما لا فلا، وبيع أحدهما بالآخر مسألة من مسائل السلم نذكره في فصل السلم إن شاء الله تعالى."

(کتاب البیع،‌‌الفصل السادس: فيما يجوز وما لا يجوز بيعه،6/320،ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

 الإختيار لتعليل المختار  میں ہے:

"قال: (ولا يجوز ‌بيع ‌الحنطة ‌بالدقيق ولا بالسويق ولا بالنخالة، ولا الدقيق بالسويق) والأصل فيه أن شبهة الربا، وشبهة الجنسية ملحقة بالحقيقة في باب الربا احتياطا للحرمة، وهذه الأشياء جنس واحد نظرا إلى الأصل، والمخلص هو التساوي في الكيل، وأنه متعذر لانكباس الدقيق في المكيال أكثر من غيره، وإذا عدم المخلص حرم البيع؛ وكذا لا تجوز المقلية بغير المقلية، ولا بالسويق والدقيق، ولا المطبوخة بغير المطبوخة، لتعذر التساوي بينهما بفعل العبد، وفعله لا يؤثر في إسقاط ما شرط عليه، ويجوز بيع المبلولة بمثلها وباليابسة، والرطبة بمثلها وباليابسة لأن التفاوت بينهما بصنع الله تعالى فيجوز."

(کتاب البیوع ،‌‌باب الربا،2/32،ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100367

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں