بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی اس شرط کے ساتھ فروخت کرنا کہ نئی گاڑی خریدنے تک اس کو استعمال کروں گا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک بائع نے مشتری کو ایک گاڑی بیچی اور شرط لگائی  کہ جب تک بائع نئی  گاڑی نہ خریدے اس کو استعمال کرنے کی اجازت رہے گی، اس طرح کی شرط لگانا مفسدِ بیع ہے یہ تو مسلم ہے، لیکن اگر دونوں رضامند ہوں  اور یہ شرط مفضی الی المنازعۃ نہ ہو تو  گنجائش کی شکل نکل سکتی ہے؟ یا اس طرح کی گنجائش کا نکالنا خواہشات کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے؟

جواب

واضح رہے کہ خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت ایسی شرط لگانا جس شرط کا یہ معاملہ نہ تقاضا  کرتا ہو  اور نہ ہی یہ شرط اس معاملہ کے مناسبات میں سے ہو  اور اس شرط میں بیچنے والے یا خریدنے والے کا کوئی فائدہ ہو تو یہ شرط خرید و فروخت کے معاملہ کو فاسد کردیتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں گاڑی بیچتے وقت یہ شرط لگانا کہ جب تک بیچنے والا نئی گاڑی نہیں خریدا گا اس وقت تک بیچنے والا ہی یہ گاڑی استعمال کرے گا  یہ شرط معاملہ کو  فاسد کردے گی۔ اس صورت میں فروخت کنندہ اور خریدار کے لیے حکم یہ ہے کہ اس معاملہ کو ختم  کر کے نئے سرے سے معاملہ کریں ۔

سائل کا یہ شبہ کہ جب دونوں فریق راضی ہیں اور یہ معاملہ مفضی الی النزاع نہیں ہے تو پھر اس شرط کی گنجائش ہونی چاہیے، یہ بات درست نہیں ہے، بے شک بعض صورتوں میں خرید و فروخت کا معاملہ مفضی الی النزاع ہونے کی بنیاد پر ناجائز ٹھہرتاہے، اور اگر کسی طرح جہالت و ابہام ختم ہوجائے تو نزاع بھی ختم ہوجاتاہے اور معاملہ جائز قرار پاتاہے، لیکن مسئولہ صورت میں معاملہ فاسد ہونے کی بنیاد نزاع نہیں ہے، بلکہ احادیث میں اس کی ممانعت مطلقاً  آئی ہے اور فقہاءِ کرام نے یہاں حرمت کی جو علت بیان کی ہے وہ یہ ہے  کہ ایک فریق  کو بغیر عوض کے زیادتی حاصل ہورہی ہے، اور بیوعات کے باب میں وہ زیادتی جو عوض کے بغیر ہو وہ ’’ربا‘‘  کے حکم میں ہوتی   ہے، الغرض یہاں علت مفضی الی النزاع ہونا نہیں، بلکہ ربا کے ساتھ  مشابہت ہے؛ لہذا  یہ شرط رضامندی کے ساتھ ہو یا بغیر رضا کے ہو دونوں صورتوں میں معاملہ ناجائز ہی ہوگا۔

البتہ اگر عقد سے پہلے یا عقد کرتے وقت اس طرح کی شرط نہ صراحتاً ذکر کی گئی ہو نہ اشارتاً نہ ہی اس علاقے میں یہ معروف ہو، اور عقد مکمل ہونے کے بعد خریدار اپنی رضامندی سے بائع کو استعمال کی اجازت دے، اور بائع بھی یہ سمجھتا ہو کہ اس گاڑی کا مالک و مختار خریدار ہے، وہ جب چاہے مجھ سے لے سکتاہے، کسی مخصوص مدت تک مجھے اجازت دینے کا پابند نہیں ہے، تو یہ شرطِ فاسد میں نہیں آئے گا، گو اس صورت میں بھی فروخت کنندہ کے لیے استفادہ نہ کرنا بہتر ہوگا۔

الفتاوى الهندية (3/ 135)ط دار الفکر:

"قال: أبيعك هذا بثلثمائة درهم وعلى أن يخدمني سنة أو قال: بثلثمائة درهم على أن يخدمني سنة أو قال: بثلثمائة درهم ويخدمك سنة كان فاسدًا؛ لأنّ هذا بيع شرط فيه الإجار،ة وكذا لو قال: أبيعك عبدي هذا بخدمتك سنة، كذا في فتاوى قاضي خان".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84)ط ایچ ایم سعید:

"(قوله: و لا بيع بشرط) شروع في الفساد الواقع في العقد بسبب الشرط «لنهيه صلى الله عليه وسلم عن بيع وشرط»، لكن ليس كل شرط يفسد البيع، نهر. وأشار بقوله: بشرط إلى أنه لا بد من كونه مقارنًا للعقد؛ لأنّ الشرط الفاسد لو التحق بعد العقد، قيل: يلتحق عند أبي حنيفة، وقيل: لا، وهو الأصح كما في جامع الفصولين".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 84) ط ایچ ایم سعید:

"في جامع الفصولين أيضًا: لو شرطا شرطًا فاسدًا قبل العقد ثم عقدا لم يبطل العقد. اهـ قلت: وينبغي الفساد لو اتفقا على بناء العقد، كما صرحوا به في بيع الهزل، كما سيأتي آخر البيوع. وقد سئل الخير الرملي عن رجلين تواضعا على بيع الوفاء قبل عقده وعقد البيع خاليًا عن الشرط. فأجاب بأنه صرح في الخلاصة والفيض والتتارخانية وغيرها بأنه يكون على ما تواضعا".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 169)ط دار الکتب العلمیة:

(ومنها) شرط لايقتضيه العقد وفيه منفعة للبائع أو للمشتري أو للمبيع إن كان من بني آدم كالرقيق وليس بملائم للعقد ولا مما جرى به التعامل بين الناس نحو ما إذا باع دارًا على أن يسكنها البائع شهرًا ثم يسلّمها إليه أو أرضًا على أن يزرعها سنةً أو دابةً على أن يركبها شهرًا أو ثوبًا على أن يلبسه أسبوعًا أو على أن يقرضه المشتري قرضًا أو على أن يهب له هبةً أو يزوج ابنته منه أو يبيع منه كذا ونحو ذلك أو اشترى ثوبًا على أن يخيطه البائع قميصًا أو حنطةً على أن يطحنها أو ثمرةً على أن يجذها أو ربطةً قائمةً على الأرض على أن يجذها أو شيئًا له حمل ومؤنة على أن يحمله البائع إلى منزله ونحو ذلك؛ فالبيع في هذا كلّه فاسد؛ لأنّ زيادة منفعة مشروطة في البيع تكون ربا؛ لأنها زيادة لايقابلها عوض في عقد البيع وهو تفسير الربا.

والبيع الذي فيه الربا فاسد أو فيه شبهة الربا، وإنها مفسدة للبيع كحقيقة الربا على ما نقرره إن شاء الله تعالى". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144111200630

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں