بندہ نے اس نیت کے ساتھ اپنی گاڑی فروخت کردی کہ گاڑی کی فروخت سے ملنے والی رقم میں مزید کچھ رقم ڈال کر اس گاڑی سے کچھ بہتر گاڑی خریدیں گے ،اور کئی ماہ گزر گئے ،مگر اب تک مزید رقم کا انتظام نہیں ہوسکا البتہ بندہ کوشش میں مصروف ہے کہ رقم کا بندوبست ہوجائے تو پرانی گاڑی کی فرخت سے ملنے والی رقم میں ملا کر نئی گاڑی خریدیں گے ،پوچھنا یہ ہے کہ رقم کے انتظام میں زیادہ تاخیر ہونے کی وجہ سے اگر پرانی گاڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم پر سال گزر گیا تو کیا اس پہ زکوٰۃ لازم ہوجائے گی یا نہیں ؟
واضح رہے کہ زکاۃ ہر ایسی رقم پر واجب ہو جاتی ہے جو بنیادی اور ماہانہ ضروری اخراجات (راشن اور یوٹیلیٹی بل وغیرہ) کے علاوہ ہو ، خواہ وہ گھریا گاڑی لینے کی نیت سے رکھی ہو یا کسی دوسری نیت سے، ایسی رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سال پورا ہو جانے پر اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہو گی۔
یہ حکم اس صورت میں ہے جب اس رقم کا مالک پہلے سے صاحبِ نصاب نہ ہو، اگر اس رقم کا مالک پہلے سے ہی صاحبِ نصاب ہو تو اس رقم پر نیا سال گزرنا شرط نہیں ہو گا، بلکہ جس ماہ اس پرزکاۃلازم ہوتی ہو اسی ماہ دوسرے مال کے ساتھ اس رقم کی بھی زکاۃ ادا کرنا لازم ہو گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی ملکیت میں گاڑی بیچنے کے نتیجے میں جو رقم آئی ہے، زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر اگر وہ رقم موجود ہو (گاڑی خریدنے یا کسی اور مصرف میں خرچ نہ ہوئی ہو اور آپ صاحبِ نصاب ہوں تو) اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہو گا۔
رد المحتار میں ہے:
"(قوله: وفارغ عن حاجته الأصلية) أشار إلى أنه معطوف على قوله عن دين (قوله وفسره ابن ملك) أي فسر المشغول بالحاجة الأصلية والأولى فسرها، وذلك حيث قال: وهي ما يدفع الهلاك عن الإنسان تحقيقا كالنفقة ودور السكنى وآلات الحرب والثياب المحتاج إليها لدفع الحر أو البرد أو تقديرا كالدين، فإن المديون محتاج إلى قضائه بما في يده من النصاب دفعا عن نفسه الحبس الذي هو كالهلاك وكآلات الحرفة وأثاث المنزل ودواب الركوب وكتب العلم لأهلها فإن الجهل عندهم كالهلاك، فإذا كان له دراهم مستحقة بصرفها إلى تلك الحوائج صارت كالمعدومة."
(رد المحتار علی الدر المختار، 262/2، سعيد).
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144306100379
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن