بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی سے ملے ہوئے ہینڈ فری کا حکم


سوال

ایک بلو ٹوتھ ہینڈ فری گاڑی سے ملے ہیں جن کی قیمت تقریباً 3000تک ہو گی اب اس کی تشہیر کی کوئی صورت نہیں ہے اور نہ ہی وہ بندہ دوبارہ مل سکتاہے اب اگر اس کو خود استعمال کر لیا جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گاڑی  میں  ملے ہوئے  مذکورہ ہینڈ فری کا حکم یہ ہے کہ  اگر مذکورہ ہینڈ فری  کا مالک معلوم ہےتو اسی کو واپس کی جائے، تاہم اگر مالک  معلوم نہیں ہے  اور تشہیر کی بھی صورت نہیں ہے (جیسے کہ سوال سے بھی یہی ظاہر ہورہا ہے)تو  اگر مالک کا پتا نہیں چلتا تو اس ہینڈ فری  کو مالک کی طرف سے صدقہ کیا جاسکتا ہے، اگر صدقہ کرنے کے بعد مالک  آجائے  تو اسے بتایا جائے ہینڈ فری  اس کی طرف سے صدقہ کردی گئی ہے،اگر وہ اس کو قبول کرلے تو صدقہ اس کی طرف سے ہوجائے گا،اور اگر وہ ا پنے ہینڈ فری کا مطالبہ کرے تو اس کے ہینڈ فری    کی مالیت اسے  دی جائے ، اس صورت میں  صدقہ کا ثواب صدقہ کرنے والے کو ملے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم ما يجده الرجل نوعان: نوع يعلم أن صاحبه لا يطلبه كالنوى في مواضع متفرقة وقشور الرمان في مواضع متفرقة، وفي هذا الوجه له أن يأخذها وينتفع بها إلا أن صاحبها إذا وجدها في يده بعد ما جمعها فله أن يأخذها ولا تصير ملكا للآخذ، هكذا ذكر شيخ الإسلام خواهر زاده وشمس الأئمة السرخسي - رحمهما الله تعالى - في شرح كتاب اللقطة، وهكذا ذكر القدوري في شرحه. ونوع آخر يعلم أن صاحبه يطلبه كالذهب والفضة وسائر العروض وأشباهها وفي هذا الوجه له أن يأخذها ويحفظها ويعرفها حتى يوصلها إلى صاحبها وقشور الرمان والنوى إذا كانت مجتمعة فهي من النوع الثاني ...

إن كان الملتقط محتاجا فله أن يصرف اللقطة إلى نفسه بعد التعريف، كذا في المحيط، وإن كان الملتقط غنيا لا يصرفها إلى نفسه بل يتصدق على أجنبي أو أبويه أو ولده أو زوجته إذا كانوا فقراء، كذا في الكافي".

(كتاب اللقطة، ج:2، ص:290، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144508100327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں