جماعت کے وقت فوجی چھاونی یاگورنرہاوس کی حفاظت کے لیے جس میں بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں ، اس کے پہرے کے لیے پہرے دار جماعت چھوڑکرانفرادی طورنمازاداکرتے ہیں، کیایہ جماعت کاچھوڑدینادرست ہے ؟ اسی طرح جمعہ کی جماعت کے وقت کابھی مسئلہ ہے ۔
واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں مسجد میں با جماعت نماز پڑھنے کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہےاور بغیر کسی شرعی عذر کے جماعت کی نماز چھوڑنے پر سخت وعیدات وارد ہوئیں ہیں ،لہذا صورتِ مسئولہ میں پہرے دینے والوں کے لیے جماعت کی نماز چھوڑ کر انفرادی طور پر نماز پڑھنا سنت طریقے کے خلاف ہے، اس لیے اگر مذکورہ مقام میں پہرہ دینا ضروری ہے تو حکومت اور محکمے کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ پہرے والوں کے لیے نمازوں کے اوقات ایسے مرتب کریں کہ کسی کی باجماعت نماز فوت نہ ہو یعنی ایسی تریتب بنائیں کہ قریبی کسی مسجد میں کچھ پہرے والے جماعت کے ساتھ نماز اداکرلیں ،تاکہ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی فضیلت حاصل ہوجائے ،اور اس کے بعد وہ پہرے پر کھڑے ہوکر دوسری جماعت والے قریبی مسجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد میں جماعت ہو وہاں نماز باجماعت ادا کرے، لیکن اگر ایسی ترتیب نہ بن سکے کہ قریب میں دوسری مسجد نہ ہو ، تو اس صورت میں مذکورہ افراد جہاں ہیں وہاں کم سے کم دو، دو آدمی کر کے جماعت کر لیں۔
سنن النسائي میں ہے:
" قال أبو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، فعليكم بالجماعة؛ فإنما يأكل الذئب القاصية، قال السائب: يعني بالجماعة الجماعة في الصلاة."
ترجمہ:"ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے کہ جس وقت کسی بستی یا جنگل میں تین افراد ہوں اور وہ نماز کی جماعت نہ کریں تو سمجھ لو کہ ان لوگوں پر شیطان غالب آگیا ہے اور تم لوگ اپنے ذمہ جماعت سے نماز لازم کرلو ، کیوں کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے جو کہ اپنے ریوڑ سے علیحدہ ہوگئی ہو۔ حضرت سائب نے فرمایا کہ اس سے مراد نماز باجماعت ہے۔"
(كتاب الامامة، باب في التشديد في ترك الجماعة، ج:2، ص:106، ط:المكتبة التجارية الكبرى بالقاهرة)
سنن أبی داود میں ہے:
" عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سمع المنادي فلم يمنعه من اتباعه، عذر ، قالوا: وما العذر؟، قال: خوف أو مرض، لم تقبل منه الصلاة التي صلى."
ترجمہ:"حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو مؤذن کی آواز سنے اور کسی عذر کے نہ ہونے کے باوجود مسجد کو نہ جائے (بلکہ گھر میں ہی نماز پڑھ لے) تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔صحابہ نے پوچھا: عذر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ ووسلم نے فرمایا: خوف (یعنی دشمن کا) یا مرض۔"
(كتاب الصلوة، باب في التشديد في ترك الجماعة، ج:1، ص:151، ط:المكتبة العصرية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال) قال الزاهدي: أرادوا بالتأكيد الوجوب إلا في جمعة وعيد فشرط. وفي التراويح سنة كفاية، وفي وتر رمضان مستحبة على قول...(وقيل واجبة وعليه العامة) أي عامة مشايخنا وبه جزم في التحفة وغيرها. قال في البحر: وهو الراجح عند أهل المذهب (فتسن أو تجب) ثمرته تظهر في الإثم بتركها مرة (على الرجال العقلاء البالغين الأحرار القادرين على الصلاة بالجماعة من غير حرج)..(قوله قال الزاهدي إلخ) توفيق بين القول بالسنية والقول بالوجوب الآتي، وبيان أن المراد بهما واحد أخذا من استدلالهم بالأخبار الواردة بالوعيد الشديد بترك الجماعة. وفي النهر عن المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة اهـ وهذا كجوابهم عن رواية سنية الوتر بأن وجوبها ثبت بالسنة قال في النهر: إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها مرة بلا عذر يوجب إثما مع أنه قول العراقيين. والخراسانيون ن على أنه يأثم إذا اعتاد الترك كما في القنية. اهـ.
وقال في شرح المنية: والأحكام تدل على الوجوب، من أن تاركها بلا عذر يعزر وترد شهادته، ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وقد يوفق بأن ذلك مقيد بالمداومة على الترك كما هو ظاهر قوله صلى الله عليه وسلم «لا يشهدون الصلاة» وفي الحديث الآخر «يصلون في بيوتهم."
(كتاب الصلوة، باب الإمامة، ج:1، ص:552، ط:سعيد)
وفیہ ایضاً:
"مجموع الأعذار التي مرت متنا وشرحا عشرون، وقد نظمتها بقولي:
أعذار ترك جماعة عشرون قد … أودعتها في عقد نظم كالدرر۔۔۔۔۔۔مرض وإقعاد عمى وزمانة … مطر وطين ثم برد قد أضر
قطع لرجل مع يد أو دونها … فلج وعجز الشيخ قصد للسفر۔۔۔۔۔خوف على مال كذا من ظالم … أو دائن وشهي أكل قد حضر
والريح ليلا ظلمة تمريض ذي … ألم مدافعة لبول أو قذر۔۔۔۔۔ثم اشتغال لا بغير الفقه في … بعض من الأوقات عذر معتبر."
(كتاب الصلوة، باب الإمامة، ج:1، ص:556، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144507101821
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن