(1) اگر کوئی جانور گائے یا بھینس دودھ دینے کے دوران حاملہ ہوجائے، تو کیا اس کا دودھ نکالنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر دودھ نکال سکتے ہیں تو کتنے عرصے تک نکال سکتے ہیں؟
(2) ہم سب جانتے ہیں کہ دودھ میں اگر پانی ملایا جائے تو یہ غلط عمل ہے، لیکن کیا ہم گائے اور بھینس کا دودھ نکالنے کے بعد دونوں کا دودھ مکس کرسکتے ہیں کاروبار کے لیے؟
(3) آج کے جدید دور میں گائے ہو یا بھینس ہو، اسے حاملہ کرنے کے لیے ڈکٹر کے ذیعے بیج اس کے اندر رکھوایا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنے ٹائم سے بچہ دے سکے۔تو کیا یہ عمل صحیح ہے؟
(1) گابھن گائے، بھینس جب تک دودھ دیتی ہو اس کا دودھ نکالنا اور استعمال کرنا شرعاً جائز ہے۔
(2) گائے اور بھینس کا دودھ ملا کرکے اس کو کسی ایک نام سے بیچنا، یعنی گائے کے دودھ کے نام سے بیچنا یا بھینس کے دودھ کے نام سے بیچنا دھوکہ دہی کے زمرے میں داخل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، البتہ گاہک کو بتلاکر فروخت کرنا جائز ہوگا۔
(3) نر جانور کا مادہ منویہ مصنوعی طریقہ سے مادہ جانور میں پہنچانے اور حمل ٹھہرانے کی شرعاً گنجائش ہے، البتہ فطری طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے، تاہم غیر فطری طریقہ اختیار کرکے اگر نر جانور کا مادہ منویہ مادہ جانور میں ڈلوایا تو اس سے ہونے والا جانور حلال ہی ہوگا۔
صحیح مسلم میں ہے:
" عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها، فنالت أصابعه بللا فقال: ما هذا يا صاحب الطعام ؟ قال أصابته السماء يا رسول الله، قال: أفلا جعلته فوق الطعام كي يراه الناس، من غش فليس مني."
ترجمہ :” حضرت ابوہریر ورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کی ایک ڈھیری کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو آپ نے فرمایا: غلے کے مالک ! یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! اس پر بارش پڑ گئی تھی، آپ نے فرمایا: تو تم نے اسے (بھیگے ہوئے غلے ) کو اوپر کیوں نہ رکھاتا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے ؟ جس نے دھوکا کیا، وہ ہم میں سے نہیں۔ “
(كتاب الايمان ، ج:1 ، ص: 99، ط: دار احياء التراث العربي)
شرح النووي على مسلم میں ہے:
"(البيعان بالخيار ما لم يتفرقا فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما) أي بين كل واحد لصاحبه ما يحتاج إلى بيانه من عيب ونحوه في السلعة والثمن."
(کتاب البیوع، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين، ج:2، ص:6، ط:قدیمي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"لا يحل كتمان العيب في مبيع أو ثمن؛ لأن الغش حرام.
(قوله؛ لأن الغش حرام) ذكر في البحر أو الباب بعد ذلك عن البزازية عن الفتاوى: إذا باع سلعة معيبة، عليه البيان وإن لم يبين قال بعض مشايخنا يفسق وترد شهادته، قال الصدر لا نأخذ به. اهـ. قال في النهر: أي لا نأخذ بكونه يفسق بمجرد هذا؛ لأنه صغيرة. اهـ
قلت: وفيه نظر؛ لأن الغش من أكل أموال الناس بالباطل فكيف يكون صغيرة، بل الظاهر في تعليل كلام الصدر أن فعل ذلك مرة بلا إعلان لا يصير به مردود الشهادة، وإن كان كبيرة كما في شرب المسكر."
(کتاب البیوع، باب خیارالعيب، ج:5، ص:47، ط:سعید)
مجمع الأنہر میں ہے:
"واعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة.....وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة."
(کتاب الأشربة، ج:2، ص:568، ط:دار إحياء التراث العربي)
فتاویٰ محمویہ میں ہے:
” سوال:ایک بکری نو عمر پاٹھ بکرے سے جفتی ہوئی، بعد جفتی ہونے کے وہ بکری گابھن رہی، اور نہ بیائی اور دودھ دینے لگ گئی، اور دودھ بھی بہت دیتی ہے جیسے بکریاں بیانے پر دیتی ہیں اس کا دودھ حلال پاک ہے یا حرم؟
جواب:اس کا دودھ حلال پاک ہے۔قال إبن نجیم رحمه اللہ " اللبن إنما یتصور ممن یتصور منه الولادة "بحر ۴۴۹/۳۔”
( کتاب الحظر والإباحۃ، ج:18، ص:249، ط: دار الافتاء فاروقیہ )
وفیہ ایضاً:
” سوال: ایک بکری گابھن نہیں ہے، مگر اچانگ اس کے تھنوں میں دودھ آگیا، اور ڈیڑھ کلو دودھ دیا، تو اس دودھ کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:ایسی بکری کا دودھ استعمال کرنا جائز ہے۔”
( کتاب الحظر والإباحۃ، ج:18، ص:250، ط: دار الافتاء فاروقیہ )
وفیہ ایضاً:
” انجکشن کے ذریعے مادہ حاملہ ہوجائے، تب بھی اس کے دودھ یا گوشت کو ناجائز نہیں کہا جائے گا، لیکن یہ طریقہ خلاف فطرت ہے۔”
( کتاب الحظر والإباحۃ، ج:18، ص:247، ط: دار الافتاء فاروقیہ )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607100284
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن