دادا کا انتقال ہوچکا ہے،دادا کے ترکہ میں ایک مکان تھا،اس وقت ورثاء میں پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں ،چاربیٹوں نےدیگر ورثاءیعنی چاربیٹیوں اور ایک بیٹے کو ان کاشرعی حصہ جتنا بنتاتھاوہ حصہ دے کر فارغ کردیاتھا،اس کے بعد ایک چچانے اپنا حصہ ایک دوسرے چچا کو بیچ دیاتھا،تو اس کے بعد یہ مکان میرے والد اوربقیہ دو چچاؤں کارہا،اگر چہ ایک چچا کا حصہ دوسرے چچا کےحصہ کو خریدنے کی وجہ سے زیادہ ہے ، اب میرے والد اور بقیہ حصہ دار چچاؤں کا بھی انتقال ہوگیا تو وہ جگہ ہمارے اور چچاکے بچوں کے حصہ میں آئی۔
اب چچاکے بچوں کا کہنا ہے کہ اس جائیداد میں پھوپھی کے بچوں کا بھی حصہ ہےتو پوچھناصرف یہ ہے کہ ان پھوپھی کے بچوں کا حصہ ہے یانہیں ؟اور ان کایہ کہنا کہ پھوپھی کے بچوں کا بھی حصہ ہے، درست ہے یانہیں؟جب کہ ہم تینوں چچاؤں کی اولاد(بیٹے/بیٹیاں) بھی ہیں۔ نیز اگر ہم بیچنا چاہیں اور پھوپھی کے بچے بھی حصہ دار ہونے کا دعوی کریں تو کیا ہم ابھی اخبار میں اشتہار دے دیں کہ جو دعویدار ہو وہ سامنے آجائے تو شرعاً ایسا کرنا جائز ہے یانہیں؟
صورت مسئولہ میں دادا کے انتقال کے بعد ان کے متروکہ مکان میں ان کی تمام اولاد یعنی پانچوں بیٹوں اور چاروں بیٹیوں کا حق تھا، دادا کے انتقال کے بعد اگر واقعۃ ً آپ کے والد اور چچاؤں نے اپنے والد مرحوم کے اس مکان میں آپ کی پھوپھیوں اور ایک چچا کا جو شرعی حصہ جتنا بنتاتھا وہ حصہ دے دیا تھا جیسا کہ سوال میں درج ہے ، اور اس کے بعد ایک چچانے اپنا حصہ ایک دوسرے چچا کو بیچ دیاتھاتو اب یہ مکان آپ کے والد اور دیگر دو چچاؤں کی ملکیت شمار ہوگا، اب جب آپ کے والد اور دیگر دو چچابھی وفات پاچکے ہیں تو یہ مکان ان کے ورثاء میں تقسیم کیاجائے گا۔
جب پھوپھیاں اپنا حصہ بھائیوں سے وصول کرچکی ہیں تو اب پھوپھی کے بچوں کا اس مکان میں شرعاً حصہ نہیں ہے،ایک چچا کے بچوں کا یہ کہنا کہ اس مکان میں پھوپھی کے بچوں کا حصہ ہے ، شرعادرست نہیں ہے۔اس معاملے کو باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے حل کردیا جائے ، اور اگر واقعۃً پھوپھیاں اپنا حصہ وصول کرچکی تھیں ، تو اب سائل اور سائل کے چچازاد بھائی جن کا اس مکان میں حصہ ہے وہ اپنا حصہ فروخت کرسکتے ہیں اور اس کے لیے کوئی بھی جائز ذریعہ (اخبار میں اشتہار دینا وغیرہ )اختیار کرسکتے ہیں ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط ...... ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما يبقى بعد الكفن والدين إلا أن تجيز الورثة أكثر من الثلث ثم يقسم الباقي بين الورثة على سهام الميراث."
(كتاب الفرائض، الباب الأول في تعريف الفرائض، ج:6، ص:446، ط:دارالفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه ويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، كذا في الكافي."
(کتاب الشرکة، الباب الأول في بيان أنواع الشركة، ج: 2، ص:301، ط: دار الفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608100315
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن