کرنسی کے کاروبار میں اگر سعودی عرب یا کسی اور ملک میں اس ملک کی کرنسی وصول کی جائے اور جس ملک بھیجنا ہو مثلاً پاکستان میں دوسرے دن حوالہ کیا جائے تو یہ معاملہ جائز ہے؟
آپ کےسوال کاتعلق اگردومختلف ملکوں کی کرنسی کی ادھارپرخریدوفروخت سےہےکہ غیرملکی کرنسیوں کاادھارپرخریدوفروخت جائزہےیانہیں،تواس کاحکم یہ ہےکہ کرنسی خواہ کسی بھی ملک کی ہو اسے فروخت کرتے ہوئے ایک ہی مجلس میں عاقدین کی جانب سے تبادلہ کرنا اور قبضہ کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، اور کسی ایک جانب سے ادھار سود ( ربا نسیئہ ) کی وجہ سے حرام ہے، پس صورتِ مسئولہ میں غیرملکی کرنسی کو روپے کے عوض ادھار فروخت کرنا شرعًا حرام ہے۔اسی مجلس میں دونوں کرنسیوں پرقبضہ ضروری ہے۔
اورآپ اگر ہنڈی کےکاروبارکےبارےمیں معلوم کرناچاہ رہےہیں تواس کاحکم یہ ہےکہ چوں کہ ہنڈی کا کاروبار ملکی وبین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے ؛ اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے جائز قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے ، البتہ اگر کسی نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھجوائی تو اسے مندرجہ ذیل شرعی حکم کی تفصیل ملحوظ رکھنا لازمی ہے :
1۔ چوں کہ مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی حیثیت قرض کی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہے، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہے، البتہ بطورِ فیس/اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔
2۔ کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں (مثلا ایک طرف کرنسی درہم ہے اور دوسری طرف پاکستانی روپیہ ہے ) لازم ہے کہ دوسرےملک جہاں قرض کی ادائیگی کرنی ہے ( مثلاً پاکستان میں) ادائیگی کے وقت یا تو قرض لی ہوئی کرنسی (مثلاً درہم ) ہی پوری پوری واپس کرے یا پھر جتنے درہم قرض دیے گئے تھے ادائیگی کے دن پاکستان میں درہم کے جو ریٹ چل رہے ہوں اس ریٹ کے مطابق، قرض دیے گئے درہم کے جتنے پاکستانی روپے بنتے ہوں، پاکستان میں ادا کیے جائیں، درھم کے مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".
(رد المحتار ، باب الصرف ، ج: 5 / ص: 257 الي 259 ط: سعيد)
تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:
"الدیون تقضیٰ بأمثالها".
(کتاب البیوع، باب القرض، ج: 1 / ص: 500 ط: قديمي)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".
( کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج: 5 / ص: 166 ط: سعید )
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:
"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلاً (وثيقة)، يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامناً لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجراً أو عمولةً على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية أو التلكس فقط؛ لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد. وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي، واللہ اعلم".
( ما يترتب على اشتراط قبض البدلين في مجلس عقد الصرف قبل الافتراق، ج: 5 / ص: 3673 ط: دار الفكر - سوريَّة - دمشق)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144308101620
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن