ایک کمپنی نے پانی کی مین لائن سے کنکشن لگوائے ہیں، جن میں سے ایک کنکشن میں میٹر لگا ہے، اس کا بل ادا کیا جاتا ہے، لیکن اس میں پانی بہت کم آتا ہے، پانی کی ضرورت کے لیے مزید دولا ئنیں لگوائی ہیں، لیکن ان دولا ئنوں میں میٹر نہیں ہے اور ان دو کنکشن میں پانی کا وال کھولنے کے لیے لائن مین (line man) ہر ماہ کمپنی سے کچھ رقم لیتا ہے، یادر ہے یہ پانی چوں کہ کمپنی میں وضو اور کمپنی کی پراڈکٹس میں بھی استعمال ہو تا ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا کمپنی کے لیے اس پانی کا استعمال جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو کیا کرنا چاہیے؟
صورتِ مسئولہ میں کمپنی نے جو مین لائن سے کنیکشن لیا ہوا ہے، جس کا میٹر بھی لگا ہوا ہے اور اس کا بل بھی ادا کیا جاتا ہے، وہ کنیکشن تو قانونی ہے اور سرکار کی طرف سے اس کے استعمال کی اجازت بھی ہے، لہٰذا اس لائن کا پانی استعمال کرنا کمپنی کےلیے جائز ہے، البتہ اس مین لائن میں سے کمپنی نے جو دو کنیکشن مزید لیے ہوئے ہیں، جس کے پیسے ماہانہ طور پر لائن مین وصول کرتا ہے، چوں کہ وہ دونوں کنیکشن غیر قانونی ہیں اور اس سے عوام الناس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہے نیز قانونی طور پر لائن مین کے لیے اپنی طرف سے کنیکشن دینا بھی جائز نہیں ہے، لہٰذا یہ دونوں کنیکشن لینا اور ان کا پانی استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور لائن مین کے لیے ماہانہ طور پر اس کنیکشن کے بدلے رقم لینا بھی جائز نہیں ہے، کمپنی کو چاہیے کہ نیا میٹر لگوائے اور قانونی طور پر نیا کنیکشن لے، البتہ اگر ان دو کنیکشن سے حاصل ہونے والے پانی سے کسی نے وضو کر لیا، تو اس کا وضو ہوجائے گا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟."
(كتاب السير، فصل في أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث، القاهرة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511100493
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن