بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر شرعی تدفین کے بعد اعادہ تدفین کا حکم


سوال

1۔ فتویٰ نمبر 144502101385 میں تدفین کے متعلق سوال تھا  کہ ہمارے ایک بزرگ کا انتقال ہوا ،طارق روڈ کے قبرستان میں دفن ہوئے، ان کی اپنی والدہ کی قبر کے اوپر چاروں طرف بلاک لگا کر قبر بنادی، اس میں دفن ہوئے ،اس کے متعلق کیا حکم ہے؟

2۔ اب سوال یہ ہے کہ مرحوم کو دفن ہوئے آٹھ ماہ ہو گئے ہیں،  اس کے متعلق اب کیا حکم ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ قرآنی تعلیمات کی رو سے یہ بات انسان کو سکھلائی گئی ہے کہ وہ انتقال کے بعد میت کو جلانے تابوت میں بند کرنے کے بجائے ،باعزت طریقے سے مٹی کے یعنی زمین کے اندرقبر بنا کر حوالے کردے ،یہی بات قرآن کریم کی آیت  "فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِي سَوْءَةَ اَخِیْه"سےمعلوم ہوتی ہے کہ جب  قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو اس کے بعد زمین کھود کر اس میں ہابیل کو دفنایا ،اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین کھود کر اس میں دفن کرنا ضروری ہے۔

علامہ نوویؒ نے "روضۃ الطالبین"  میں لکھا ہے:

"تدفین  کے لیے کم از کم یہ ہے کہ میت کو ایسے گڑھے میں دفن کیا جائے جہاں سے میت کی بو نہ آئے، اور درندوں سے محفوظ رہے۔'

اور پھر فرمایا:

"قبر کم از کم ایک درمیانے آدمی کے قد کے برابر گہری ہو۔

 اور گہری تب ہی ہوسکتی ہے جب کہ زمین کھود کر بنائی جائے ،نہ کہ زمین کے اوپر بلاک رکھ کر؛  کیوں کہ یہ قبر میں رکھنا نہیں ،بلکہ زمین کے اوپرچہار دیوار ی کے اندر  رکھنا کہا جائے گا۔

نیز تعامل اور توارثِ  اُمت اس کی واضح دلیل ہے، قرون مشہود لہا بالخیر اور بعد کے اَدوار میں کوئی  ایک بھی مثال نہیں پیش کی جا سکتی  کہ بلا حفر  (زمین کھودے بغیر) کسی میت کو زمین پر رکھ کر پختہ عمارت بنا دی گئی ہو اور اس کو دفن شرعی یا قبر شرعی کہا گیا ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جس بزرگ کی قبر کو  ان کی والدہ کی قبر کے اوپر بلاک لگا کر بنایا گیا ہے،  یہ طریقہ شرعًا درست نہیں ،اس طریقہ کو دفن کرنا نہیں کہا جائے گا۔

2۔جب شرعی تدفین نہیں ہوئی تو  صورتِ مسئولہ میں اعادہ تدفین ضروری ہے،اس اعادے  کو نبش قبر  (قبرکشائی) نہیں کہا جائے گا۔

روضۃ الطالبین میں ہے:

‌‌"فصل:أقل ما يجزئ في الدفن حفرة تكتم رائحة الميت، وتحرسه عن السباع لعسر نبش مثلها غالبا. أما الأكمل، فيستحب توسيع القبر، وتعميقه قدر قامة وبسطة، والمراد قامة رجل معتدل يقوم ويبسط يده مرفوعة."

(كتاب الجنائز، ج:2، ص:132، ط:المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

‌‌"مطلب ‌في ‌دفن ‌الميت:

(قوله: وحفر قبره إلخ) شروع في مسائل الدفن. وهو فرض كفاية إن أمكن إجماعا حلية. واحترز بالإمكان عما إذا لم يمكن كما لو مات في سفينة كما يأتي. ومفاده أنه لا يجزئ دفنه على وجه الأرض ببناء عليه."

(كتاب الجنائز، ج:2، ص:233، ط:سعید)

روح المعانی میں ہے:

"فَبَعَثَ ٱللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ لِيُرِيَهُۥ كَيْفَ يُوٰرِي سَوْءَةَ أَخِيْهِ"        

"أخرج عبد بن حميد وابن جرير عن عطية قال: لما قتله ندم فضمه إليه حتى أروح وعكفت عليه الطير والسباع تنتظر متى يرمي به فتأكله، وكره أن يأتي به آدم عليه الصلاة والسلام فيحزنه وتحير في أمره إذ كان أول ميت من بني آدم عليه السلام، فبعث الله تعالى غرابين قتل أحدهما الآخر وهو ينظر إليه ثم حفر له بمنقاره وبرجله حتى مكن له ثم دفعه برأسه حتى ألقاه في الحفرة ثم بحث عليه برجله حتى واراہ۔۔۔والبحث- في الأصل التفتيش عن الشيء مطلقا، أو في التراب، والمراد به هنا ‌الحفر" 

(سورہ مائدہ،ج:3،ص:286،آیت نمر31،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں