ہم گھر میں گزشتہ تقریبا چھ سال سے ناظرہ پڑھا رہیں ہیں یہ تین مرلہ مکان ہے جس کے شروع میں دکان اور باقی حصہ فی الوقت خالی ہے الحمد للہ اس وقت .وقت کافی بچے وہاں زیر تعلیم ہیں مسئلہ یہ ہے کے اب جگہ ہماری کم پڑ جاتی ہے ہمارا ارادہ یہ تھا کے ہم اس دفعہ اور جگہ خرید کر وہاں مدرسہ بنائیں لیکن بظاہر ایسی کوئی ترتیب نہیں بن رہی تو ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے یہ مذکورہ مکان کی اوپر ایک ہال تعمیر کر لیاجائے کےجب تک کوئی مدرسے کے لیے کوئی ترتیب نہ بن جاۓ پوچھنا یہ ہے کے کیا ہم مذکورہ جگہ میں مدرسےکے پیسوں سے تعمیر کرسکتے ہیں اور یہ مذکورہ جگہ والد صاحب کے نام پر ہے دوسری ترتیب یہ کے ہم مدرسے کی تعمیر مدرسے کے چندہ سے کر لیں اور جتنی لاگت آے اس کو ہر ماہ مذکورہ مکان کےکرایہ میں کٹاتیں جائیں ۔
واضح رہے کہ جن کاموں کے لیے چندہ کیا جائےیا جس کےلیے چندہ دیا جائےتو وہ رقم ان ہی کاموں میں صرف کی جائے ،دوسرے کاموں میں چندہ دہندہ گان کی اجازت کے بغیرخرچ کرنا درست نہیں، صورت مسئولہ میں چونکہ مذکورہ جگہ وقف نہیں ہےبلکہ مدرسہ کے عارضی استعمال کے لیے دی گی ہے جیساکہ سوال سے معلوم ہورہاہے اس لیے مدرسہ کے چندہ سے اس کی تعمیر درست نہیں ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وهنا الوكيل إنما يستفيد التصرف من الموكل وقد أمره بالدفع إلى فلان فلا يملك الدفع إلى غيره كما لو أوصى لزيد بكذا ليس للوصي الدفع إلى غيره فتأمل."
(کتاب الزکات، ج:2، ص:269، ط: دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"في فتاوى أبي الليث - رحمه الله تعالى - رجل جمع مالا من الناس لينفقه في بناء المسجد فأنفق من تلك الدراهم في حاجته ثم رد بدلها في نفقة المسجد لا يسعه أن يفعل ذلك فإن فعل فإن عرف صاحب ذلك المال رد عليه أو سأله تجديد الإذن فيه وإن لم يعرف صاحب المال استأذن الحاكم فيما يستعمله وإن تعذر عليه ذلك رجوت له في الاستحسان أن ينفق مثل ذلك من ماله على المسجد فيجوز، لكن هذا واستثمار الحاكم يجب أن يكون في رفع الوبال أما الضمان فواجب، كذا في الذخيرة."
(كتاب الاوقاف، الباب الثالث عشر فى الاوقاف اللتى يستغنى عنها،ج:2، ص:480،، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608102212
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن