ایک شخص ٹوپیوں کا کاروبار کرتا ہےاور اس کو ایک ٹوپی 120 روپے کی پڑی ہے ،اب وہ خریدار کو 150 روپے میں بیچتا ہے یہ باور کرواکر کہ جس قیمت میں مجھے پڑی ہے اسی قیمت پر آپ کو دے رہا ہوں۔
پوچھنا یہ ہے کہ بیچنے والے کے لئے 30 روپے کا منافع حلال ہے یا حرام؟
جھوٹ بول کر اور گاہک کو دھوکا دے کر نفع کمانا جائز نہیں ہے، یعنی گاہک کو قیمتِ خرید زیادہ بتاکر چیز مہنگی خریدنے پر راضی کرنا جھوٹ ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اور جتنی آمدن جھوٹ اور دھوکے سے حاصل ہو وہ حلال اور پاکیزہ بھی نہیں ہے۔ ہرگاہک کو قیمت بتانا بھی ضروری نہیں ہے، قیمتِ خرید بتائے بغیر بائع (فروخت کرنے والا) جتنا بھی مناسب نفع رکھنا چاہے رکھ سکتا ہے، اس لیے کہ شریعتِ مطہرہ میں عمومی احوال میں (یعنی غلہ وغیرہ کی قلت وغذا کا بحران نہ ہو تو طعام کے علاوہ دیگر اشیاء کے) منافع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، باہمی رضامندی سے جس قیمت پر سودا ہوجائے وہ جائز ہے، تاہم مسلمان کی خیر خواہی کا جذبہ ملحوظ رہنا چاہیے، اس لیے کسی سادہ لوح گاہک کو اتنی قیمت لگاکر فروخت کرنا جس میں دھوکے کا پہلو آتاہو درست نہیں ہے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"وعنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر على صبرة طعام فأدخل يده فيها فنالت أصابعه بللا فقال: ما هذا يا صاحب الطعام؟ قال: أصابته السماء يا رسول الله. قال: أفلا جعلته فوق الطعام حتى يراه الناس، من غش فليس مني.
( قال: أفلا جعلته) قال أسترت عينه أفلا جعلت البلل (فوق الطعام حتى يراه الناس) فيه إيذان بأن للمحتسب أن يمتحن بضائع السوقة ليعرف المشتمل منها على الغش من غيره. (من غش) أي خان وهو ضد النصح (فليس مني) أي ليس هو على سنتي وطريقتي."
(کتاب البیوع ،باب المنہی عنہا من البیوع،ج:5،ص:1935،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100983
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن