1-میری دو ایکڑ وراثت میں ملی ہوئی زمین ہے جو ٹھیکہ پر دی ہوئی ہے اور چار کنال سات مرلے کا ذاتی گھر کرائے پر دیا ہوا ہے، میں یہ وصیت کرنا چاہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میری ٹھیکے پر دی ہوئی زمین اورگھر کے کرائے میں سے آدھا حصہ مسجد اور مدرسہ پر خرچ کرنا لازم ہوگا اگر میری اولاد نہ ہوئی۔کیا یہ وصیت کرنا صحیح ہے ؟
2-اگر اپنی زندگی میں کچھ جائیداد بغیر قبضہ کے اپنی اہلیہ کے نام کردوں اور اہلیہ مجھ سے پہلے دنیا سے چلی جائے تو اس کی شرعا کیسے تقسیم ہوگی ؟اس کے حقیقی بھائی وارث بنیں گے یا شوہر ؟
1- ہرشخص کو اپنےمال میں اپنے وارث کےعلاوہ کے لئے ایک تہائی مال تک کی وصیت کرنے کا اختیار ہوتاہے ،ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے،اگر بالغ ورثاء اجازت دے دیں تو ایک تہائی سے زیادہ مال کی وصیت نافذ ہو جاتی ہے ۔اگر کوئی شخص گھر یا زمین کے کرائے کی کسی کے لئے وصیت کرے تو اگراس گھر یا زمین کی مالیت موصی کے کل مال کےایک ثلث کے برابر یا اس سے زیادہ ہوتو یہ وصیت نافذ ہو جائے گی،اور اگراس کی مالیت کل مال کے ایک ثلث سے کم ہوتو یہ وصیت ایک ثلث تک نافذ ہوگی البتہ ورثاء(جب کہ سب عاقل ،بالغ ہوں )ا جازت دے دیں تو پوری وصیت نافذ ہوجائے گی۔
لہذاصورت ِمسئولہ میں سائل کا زمین کے ٹھیکے اور گھر کے کرائے میں سے آدھے حصہ کی اولاد نہ ہونے کی شرط کے ساتھ مسجداور مدرسہ پر خرچ کرنے کی وصیت کرناصحیح ہے، بشرطیکہ زمین اور گھر کی مالیت سائل کی کل جائیداد کے ایک ثلث کے برابر ہو یا اس سے زائد ہو ،اوراگر گھر اور زمین کی مالیت سائل کی کل جائیداد کے ایک ثلث سے کم ہوتوزمین کے ٹھیکہ اور گھر کے کرایہ میں سے ایک تہائی حصہ کی حدتک وصیت صحیح ہو جائے گی اور مذکورہ جائیداداکا ایک تہائی حصہ مرنے کے بعدحکماموصی(وصیت کرنے والے) کی ملکیت میں ہی باقی رہےگااورورثاء کےلئے اس جائیداد کے ایک تہائی حصہ کو بیچناجائز نہ ہوگا۔
2-اگر کوئی شخص کسی دوسرے کو بغیر قبضہ کے کوئی چیزہبہ (گفٹ)کردے تو دوسرا اس کا مالک نہیں ہوتا ،مالک بننے کے لئے موہوبہ چیز پرقبضہ ضروری ہے،صورت مسئولہ میں اگر سائل نے جائیداد بغیر قبضہ دیے ہوئےاہلیہ کے نام کردی اوراہلیہ کو اس جائیداد میں تصرف کرنے کا حق نہیں دیا تو وہ جائیداد بدستور سائل کی ملکیت میں رہے گی۔
الدرالمختارمیں ہے:
"(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته) ولا تعتبر إجازتهم حال حياته أصلا بل بعد وفاته (وهم كبار) يعني يعتبر كونه وارثه أو غير وارث وقت الموت لا وقت الوصية على العكس إقرار المريض للوارث."
(کتاب الوصایا، ج:6، ص: 650،651، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(صحت الوصية بخدمة عبده وسكنى داره مدة معلومة وأبدا) ويكون محبوسا على ملك الميت في حق المنفعةكما في الوقف كما بسط في الدرر (وبغلتهما، فإن خرجت الرقبة من الثلث سلمت إليه) أي إلى الموصى له (لها) أي لأجل الوصية (وإلا) تخرج من الثلث (تقسم الدار أثلاثا) أي في مسألة الوصية بالسكنى، أما الوصية بالغلة فلا تقسم على الظاهر.وليس للورثة بيع ما في أيديهم من ثلثها) على الظاهر لثبوت حقه في سكنى كلها بظهور مال آخر أو بخراب ما في يده فحينئذ يزاحمهم في باقيها والبيع ينافيه فمنعوا عنه، وعن أبي يوسف لهم ذلك.
قوله( فإن خرجت الرقبة من الثلث) أي رقبة العبد والدار في الوصية بالخدمة والسكنى والغلة، وقيد بالرقبة لما في الكفاية أنه ينظر إلى الأعيان التي أوصى فيها، فإن كان رقابها مقدار الثلث جاز ولا تعتبر قيمة الخدمة والثمرة والغلة والسكنى لأن المقصود من الأعيان منافعها، فإذا صارت المنافع مستحقة وبقيت العين على ملك الوارث صارت بمنزلة العين التي لا منفعة لها فلذا تعتبر قيمة الرقبة كأن الوصية وقعت بها اهـ.
قوله (فلا تقسم) أي الدار نفسها، أما الغلة فتقسم.قال الأتقاني: إذا أوصى بغلة عبده أو داره سنة ولا مال له غيره فله ثلث غلة تلك السنة لأنها عين مال يحتمل القسمة اهـ. فلو قاسمهم البستان فغل أحد النصيبين فقط اشتركوا فيها لبطلان القسمة سائحاني عن المبسوط (قوله على الظاهر) أي ظاهر الرواية إذ حقه في الغلة لا في عين الدار، وفي رواية عن الثاني تقسم ليستغل ثلثها شرنبلالية عن الكافي."
(کتاب الوصایا،باب الوصیۃبالخدمۃ والسکنی والثمرۃ، ج:6، ص:691،692، ط:سعید)
البنایۃ فی شرح الھدایۃ میں ہے:
"(ويكون) ش: أي العين م: (محبوسا على ملكه) ش: أي ملك الموصي م: (في حق المنفعة حتى يتملكها الموصى له على ملكه كما يستوفي الموقوف عليه منافع الوقف على حكم ملك الواقف) ش: وجه التشبيه بينهما من حيث أن كلا منهما استيفاء المنافع الحادثة على حكم ملك الموصي والواقف، وقد عرفت أن الواقف جنس العين على ملك الواقف والتصدق بالمنفعة وكذلك هذه الوصية حبس العين على ملك الموصي والوصية بالمنفعة إلا أن هذه إذا كانت مؤقتة تعود إلى ملك الورثة بعد انقضاء الوقت."
(کتاب الوصایا،باب الوصية بالسكنى والخدمة والثمرة، ج:13، ص: 487، ط:دارالکتب العلمیۃ)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وبموته) أي الموصى له (في حياة الموصي بطلت) الوصية (وبعد موته يعود) العبد والدار (إلى الورثة) أي ورثة الموصي بحكم الملك.
(قوله يعود العبد والدار) أي خدمة العبد وسكنى الداروغلتهما كما عبر الأتقاني لأن ذلك هو الموصى به تأمل (قوله بحكم الملك) أي ملك الموصي أو ورثته فلا يعود إلى ورثة الموصى له.وعبارة الهداية: فإن مات الموصى له عاد إلى الورثة لأن الموصي أوجب الحق للموصى له ليستوفي المنافع على حكم ملكه، ولو انتقل إلى وارث الموصى له استحقها ابتداء من ملك الموصي من غير رضاه وذلك لا يجوز اهـ."
(کتاب الوصایا،باب الوصیۃبالخدمۃ والسکنی والثمرۃ، ج:6، ص:693،694، ط:سعید)
الاختیار لتعلیل المحْتار میں ہے:
" (وَتَجُوزُ الْوَصِيَّةُ بِخِدْمَةِ عَبْدِهِ وَسُكْنَى دَارِهِ وَبَغْلَتِهِمَا أَبَدًا وَمُدَّةً مَعْلُومَةً) لِأَنَّ الْمَنَافِعَ يَصِحُّ تَمْلِيكُهَا حَالَ الْحَيَاةِ بِعِوَضٍ وَغَيْرِ عِوَضٍ، فَكَذَا بَعْدَ الْمَمَاتِ لِلْحَاجَةِ إِلَى ذَلِكَ كَالْأَعْيَانِ، ثُمَّ إِنَّ الْمُوصَى لَهُ يَتَمَلَّكُهَا عَلَى مِلْكِ الْمُوصِي كَمَا قُلْنَا فِي الْوَقْفِ، وَتَجُوزُ مُؤَقَّتًا وَمُؤَبَّدًا كَمَا فِي الْإِعَارَةِ وَالْإِجَارَةِ؛ لِأَنَّهَا تَمْلِيكٌ.
قَالَ: (فَإِنْ خَرَجَا مِنَ الثُّلُثِ اسْتَخْدَمَ وَسَكَنَ وَاسْتَغَلَّ) لِأَنَّ الثُّلُثَ حَقُّ الْمُوصِي فَلَا تُزَاحِمُهُ الْوَرَثَةُ فِيهِ، وَهَذَا لِأَنَّ الْوَصِيَّةَ بِالْمَنْفَعَةِ تَمْلِيكُ الرَّقَبَةِ فِي حَقِّ مِلْكِ الْمَنْفَعَةِ ; لِأَنَّهُ لَا يُمْكِنُهُ الِانْتِفَاعُ بِالْعَيْنِ إِلَّا بِصَيْرُورَتِهِ أَخَصَّ بِمِلْكِ الرَّقَبَةِ كَالْإِجَارَةِ فَكَانَتْ وَصِيَّةً بِمِلْكِ الرَّقَبَةِ فِي حَقِّ الِانْتِفَاعِ لَا مُطْلَقًا."
(کتاب الوصایا،فصل فیمایجوز الوصیةبه،ج: 5، ص: 70، ط: مطبعۃ الحلبی القاھرۃ)
مبسوط سرخسی میں ہے:
"المنفعة تحتمل التمليك ببدل وبغير بدل في حال الحياة فيجعل التمليك بعد الموت أيضا، وهذا؛ لأن الموصي تبقى العين على ملكه حتى يجعله مشغولا بتصرفه موقوفا على حاجته، فإنما يحدث المنفعة على ملكه، فإذا ثبت هذا في المنفعة فكذلك في الغلة؛ لأنها بدل المنفعة."
(کتاب الوصایا، باب الوصیۃبالخدمۃوالغلۃ ، ج: 27، ص: 181، ط: ادارۃ القرآن)
الدرالمختارمیں ہے:
"الغلة كل ما يحصل من ريع الأرض وكرائها وأجرة الغلام ونحو ذلك كذا في جامع اللغة."
(کتاب الوصایا، باب الوصیۃ بالخدمۃ والسکنی والثمرۃ، ج: 6، ص: 695، ط: سعید)
الدرالمختارمیں ہے:
"(أوصى بشيء للمسجد لم تجز الوصية) لأنه لا يملك، وجوزها محمد. قال المصنف: وبقول محمد أفتى مولانا صاحب البحر (إلا أن يقول) الموصي (ينفق عليه) فيجوز)."
(کتاب الوصایا، باب الوصیۃ بالخدمۃ والسکنی والثمرۃ، ج: 6، ص: 696، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وما) يصح و (لا يبطل بالشرط الفاسد) لعدم المعاوضة المالية سبعة وعشرون ما عده المصنف تبعا للعيني وزدت ثمانية (القرض والهبة والصدقة والنكاح والطلاق والخلع والعتق والرهن والإيصاء) ك جعلتك وصيا على أن تتزوج بنتي (والوصية).
قوله( والوصية) كأوصيت لك بثلث مالي إن أجاز فلان عيني، وفيه نظر لأنه مثال تعليقها بالشرط وليس الكلام فيه. وفي البزازية: وتعليقها بالشرط جائز لأنها في الحقيقة إثبات الخلافة عند الموت اهـ ومعنى صحة التعليق أن الشرط إن وجد كان للموصى له المال وإلا فلا شيء له بحر."
(باب مایبطل بالشرط الفاسدولایصح تعلیقہ بہ، ج: 249،250 ص: 696، ط: سعید)
الدرالمختار میں ہے:
"وشرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)...والتمكن من القبض كالقبض فلو وهب لرجل ثيابا في صندوق مقفل ودفع إليه الصندوق لم يكن قبضا) لعدم تمكنه من القبض (وإن مفتوحا كان قبضا لتمكنه منه) فإنه كالتخلية في البيع اختیار."
(کتاب الھبۃ، ج:5 ، ص: 688، 690، ط: سعید)
فتاوی مفتی محمود میں ہے:
"سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین در یں مسئلہ کہ اسلام الدین فوت ہوا اور ایک لڑکا مسمی مبین اور ایک لڑکی مسماۃ کا من اور برادر زدگان مسمی جلال الدین وغیرہ اور دو بھانجے مسمی حفیظ الدین اورحافظ نصیر الدین چھوڑ گیا۔ دو سگے بھائی بھی حیات ہیں اور ساتھ ہی اپنی زندگی میں ایک دکان بدست خواہر زادہ حفیظ الدین نے فروخت کر کے رجسٹری کرادی، لیکن بعد از چندے قیمت دکان وصول کردہ خواہر زادہ کو واپس کر کے زبانی وصیت کی کہ کرایہ دکان ہذا بر ادر زادگانم مسمیان جلال الدین وغیرہ کو دے دیا کریں۔ صورت ہذا میں بیع دکان ووصیت درست اور صحیح عند الشریعت وعند القانون ہوگی یا نہیں ۔ بصورت دیگر تر کہ متوفی کیسے تقسیم ہوگا۔
نوٹ: یہ بات قابل ذکر ہے کہ متوفی اپنے پسراوردختر کو نا فرمان کہتارہا ہے۔
جواب: صورت مسئولہ میں اگر حفیظ الدین کے نام فرضی طور پر کاغذات میں دکان کی ملکیت ظاہر کر کے رجسٹری کرادی ہو یا با قاعدہ بیع کرنے کے بعد قیمت واپسی کر کے دکان حاصل کرلی ہو، ہر دو صورت میں یہ دکان شرعااسلام الدین کی ملکیت شمار ہوگی اور وصیت بھتیجوں کےنام درست ہے، اور جیسا کہ سوال کے متعلق زبانی طور پر معلوم ہوا ہے کہ اس کی اور کوئی جائیداد نہیں ہے،لہذااس دکان کے کرایہ کا ایک تہائی حصہ بطور وصیت کےبرادرزادگان کو ملےگااور دو تہائی حصہ بطور وراثت کے اسلام الدین کےلڑکے اور لڑکی کو ملے گا، باپ کے نافرمان کہنے اور عاق کرنے سے اولا وشر عا وراثت سے محروم نہیں ہوتی ۔ "
(وصیت کا بیان، ج: 9، ص:182، ط: جمعیت پبلیکشنز)
احسن الفتاوی میں ہے:
"سوال : ایک شخص کے انتقال کے وقت اس کے ترکہ میں صرف ایک دکان تھی اور ورثہ میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہے ۔ دکان کے کرایہ کے بارے میں اس نے یہ وصیت کی کہ میرے برادر زادگان کو دے دیا کرنا۔ کیا یہ وصیت از روئے شرع درست ہے ؟
جواب : یہ وصیت صحیح ہے۔ کرایہ کی ایک تہائی برادر زادگان کی حیات تک ان پر برابر تقسیم ہوا کرے گی اور دو تہائی لڑکے اور لڑکی کو ملا کرے گی ، برادر زادگان میں سے کسی کا بھی انتقال ہو گیا تو اس کو وصیت میں ملنے والا حصہ بھی لڑکے اور لڑکی کو ملنے لگے گا ،اگر لڑکے کا انتقال برادر زادگان سے پہلے ہوگیا تو چونکہ اس صورت میں برادر زادگان وارث بن جائیں گے اور وارث کے لئے دصیت جائز نہیں اس لئے یہ وصیت باطل ہو جائے گی اور برادر زادگان کو وصیت کی بجائے بطور وراثت حصہ ملے گا۔ "
(کتاب الوصیۃ والفرائض، ج:9 ، ص: 297، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101631
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن