میں نے اپنا فلیٹ کسی دوسرے شخص کو بیچا،اور اس نے مجھے دس لاکھ روپے ایڈوانس دے دیے،اور یہ بات طے ہوئی کہ چار مہینے تک پیمنٹ کرکے مکان خالی کردیں گے،چار مہینے بعد انہوں نے کہا کہ گھر خالی کرو،میں نے کہا مجھے دس پندرہ دن د ے دو تاکہ میرا دوسرا گھر تیار ہو جائے،جب میں نے دس پندرہ دن بعد گھر خالی کر دیا،اور انہوں نے آکر دیکھ لیا،تو اس کے بعد کہا کہ ہمیں یہ گھر نہیں چاہیئے،اس کے بعد میں ایک ڈیڑھ مہینے تک انتظار کرتا رہا،لیکن انہوں نے کوئی ردِ عمل نہیں دیا،اور یہی کہتے رہیں کہ ہمیں گھر نہیں چاہیئے،اس سارے معاملہ میں ایک بروکر بھی تھا،جو ان کو کہتا رہا کہ آکر پیمنٹ کر دیں،ورنہ آپ کو اپنے دس لاکھ روپے نہیں ملیں گے،مگر وہ لوگ اس کے باوجود بھی نہیں آئے،ان کے ساتھ یہ سودا اٹھاون لاکھ روپے میں ہوا تھا،پھر میں نے یہ گھر تریپن لاکھ روپے میں کسی اور شخص کو بیچ دیا،میں نے اپنا گھر بیچ کر دوسری جگہ جو فلیٹ خریدا تھا،اس کی پیمنٹ ادا کردی،اب میرے پاس ان کے پانچ لاکھ روپے بچے ہوئے ہیں،اور وہ دس لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہے ہیں،اب چوں کہ ان کے پیسوں سے میرے پاس پانچ لاکھ بچے ہوئے ہیں،باقی خرچ ہو گئے ہیں،تو میں ان کو پانچ لاکھ ادا کرنے کا ذمہ دار ہو ں یا دس لاکھ ادا کروں گا؟
صورتِ مسئولہ میں جب آپ کو پہلے خریدار نے دوسرا سودا کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، تو آپ کے لیے یہ گھر ان کی اجازت کے بغیر آگے بیچنا جائز نہیں تھا، یا تو آپ پہلے خریدارکے ساتھ پہلا سودا ختم کریں تو اس صورت میں آپ کا دوسرا سودا درست ہوگا،اور آپ پر ان کو پورے دس لاکھ روپے واپس کرنا لازم ہوں گے،یا اگر پہلا خریدار آپ کو دوسرے سودے کی اجازت دےتو اس صورت میں یہ دوسرا سودا ان کی طرف سے تسلیم کیاجائے گا،اور اس میں جو نقصان ہو گا،اس کا ذمہ دار پہلا خریدار ہوگا،اس دوسری صورت میں جب کہ خریدار اجازت دے دے توآپ اس نقصان کو دس لاکھ روپے سے منہا کرکے باقی جتنے بھی پیسے بنتے ہیں،وہ ان کو واپس کردیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"باب الاقالة هي لغة: الرفع من أقال أجوف يائي، وشرعا: (رفع البيع) وعمم في الجوهرة فعبر بالعقد (ويصح بلفظين ماضيين و) هذا ركنها (أو أحدهما مستقبل) كأقلني فقال أقلتك لعدم المساومة فيا فكانت كالنكاح.وقال محمد: كالبيع.قال البرجندي: وهو المختار (و) تصح أيضا (بفاسختك وتركت ورفعت وبالتعاطي) ولو من أحد الجانبين (كالبيع) هو الصحيح.بزازية.
وفي السراجية: لا بد من التسليم والقبض من الجانبين (وتتوقف على قبول الآخر) في المجلس ولو كان القبول (فعلا) كما لو قطعه أو قبضه فور قول المشتري أقلتك لان من شرائطها اتحاد المجلس ورضا المتعاقدين أو الورثة أو الوصي وبقاء المحل القابل للفسخ بخيار."
"(قوله: وتتوقف على القبول) فلو اشترى حمارا ثم جاء به ليرده، فلم يقبله البائع صريحا واستعمل الحمار أياما ثم امتنع عن رد الثمن وقبول الإقالة كان له ذلك؛ لأنه لما رد كلام المشتري بطل فلا تتم الإقالة باستعماله خانية. (قوله: في المجلس) فلو قبل بعد زوال المجلس أو بعدما صدر عنه فيه ما يدل على الإعراض لا تتم الإقالة ابن مالك. وفي القنية: جاء الدلال بالثمن إلى البائع بعدما باعه بالأمر المطلق، فقال له البائع لا أدفعه بهذا الثمن فأخبر به المشتري فقال: أنا لا أريده أيضا لا ينفسخ؛ لأنه ليس من ألفاظ الفسخ؛ ولأن اتحاد المجلس في الإيجاب والقبول شرط في الإقالة ولم يوجد اشترى حمارا ثم جاء ليرده فلم يجد البائع فأدخله في إصطبله فجاء البائع بالبيطار فبزغه فليس بفسخ؛ لأن فعل البائع وإن كان قبولا ولكن يشترط فيه اتحاد المجلس اهـ."
(کتاب البيوع، باب الإقالة ، ج:5، ص:120، ط:ایچ ایم سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا باع الرجل مال الغير عندنا يتوقف البيع على إجازة المالك ويشترط لصحة الإجازة قيام العاقدين والمعقود عليه ولا يشترط قيام الثمن إن كان من النقود فإن كان من العروض يشترط قيامه أيضا كذا في فتاوى قاضي خان ثم إذا صحت الإجازة فيما إذا كان الثمن شيئا يتعين بالتعيين وكان الثمن قائما فالثمن يكون للبائع دون المجيز ويرجع المجيز على البائع بقيمة ماله إن كان من ذوات القيم وبمثله إن كان من ذوات الأمثال هكذا في المحيط."
(کتاب البیوع، ج:3، ص:152، ط:رشیدیة)
وفیه أيضاً:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي كذا في البحر الرائق."
(2/167، فصل فی التعزیر، ط: رشیدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100679
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن