بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی خریداری کے لیے بینک سے سودی قرض لینے کا حکم


سوال

میں کینیڈا میں مقیم ہوں اور یہاں اپنی ذاتی رہائش کے لیے ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں، مکان خریدنے کے لیے میں ایک بینک سے قرض لینا چاہتا ہوں، جس کی واپسی مجھے ماہانہ قسطوں کی صورت میں کرنی ہو گی، اس ماہانہ قسط میں اصل رقم کے علاوہ کچھ اضافی رقم بھی شامل ہو گی جو کہ پہلے سے طے شدہ ہو گی، مجھے معلوم کرنا ہے کہ کیا یہ اضافی رقم سود کے زمرے میں آتا ہے؟ مجھے کسی نے بتایا کہ یہ سود نہیں، بلکہ بیاج ہے، جس کا دینا جائز ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں، ایک اور شخص نے بتایا کہ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی رہائش کے لیے کسی ایک مکان پر بینک سے سود پر قرض لیتا ہے تو وہ جائز ہے، میں ان جوابات سے مطمئن نہیں ، برائے مہربانی مجھے بتائیں کہ کیا میں مندرجہ بالا شرائط پر بینک سے اپنی ذاتی رہائش کے لیے مکان کی خریداری کے لیے قرض لے سکتا ہوں؟ اس پر کوئی گناہ تو نہیں؟

جواب

واضح  رہے  کہ گھر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن  یہ ضرورت  کرایہ کے  مکان میں رہ کر بھی پوری  کی جاسکتی ہے، اور اپنے اخراجات محدود کرکے بچت بھی کی جاسکتی ہے، نیز اعتدال کے ساتھ شرعی حدود میں  رہ کر اپنی محنت اور دعا بڑھاکر آمدن میں اضافہ بھی ممکن ہے، بہرحال سود  پر قرض  (لون)  لینا  چاہے گھر کی خریداری کے لیے ہو یا تجارت کے لیے، چاہے بینک سے لیاجائے یا کسی اور ادارے سے، جائز نہیں ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں مکان کی خریداری کے لیے بینک سے قرض لے کر اس پر اضافی رقم  دینا سود کے حکم میں ہے ،جس کا لینا دینا دونوں حرام ہے ،اس سے بچنا لازم ہے ۔

ارشاد باری  تعالی ہے:

"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ}."[البقرة: 278، 279]

ترجمہ:"اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔"(از بیان القرآن)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}."[البقرة: 276]

 ترجمہ:"اللہ سود کو مٹاتے ہیں،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں"۔(از بیان القرآن)

حدیثِ مبارک میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»".

(صحیح مسلم ،باب لعن آکل الربا۔۔۔۔،ج:3،ص:1219،داراحیاء التراث )

ترجمہ:"حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسولِ کریم ﷺ نے  سود  کھانے (لینے) والے پر،  سود کھلانے (دینے)  والے پر،  سودی لین دین  لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں۔"

فقط واللہ اعلم 

 


فتوی نمبر : 144511102411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں