بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1446ھ 16 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

گھر کی عورتوں کو تراویح پڑھانے کا حکم


سوال

کیا اپنے گھر کی عورتوں کی تراویح میں امامت کرنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مرد گھر میں تراویح کی امامت کرے اور اس کے پیچھے کچھ مرد  اور گھر کی ہی کچھ خواتین اس کی اقتدا میں تراویح  ادا کریں ، اور امام عورتوں کی امامت کی نیت کرے تو  شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں، البتہ  عورتوں  کا مردوں کی صفوں سے پیچھے صف بنانا ضروری  ہے۔

نیز اگر امام تنہا ہو اور مقتدی سب عورتیں ہوں،  امام عورتوں کی امامت کی نیت بھی  کرے، نامحرم عورتوں سے شرعی پردے کا اہتمام بھی ہو  اور عورتوں میں امام کی کوئی محرم خاتون بھی موجود ہو  ، تو اس صورت میں بھی تراویح درست ہے، اور اگر عورتوں میں کوئی محرم خاتون یا بیوی وغیرہ نہ ہو تو اس صورت میں امامت کرنا مکروہ ہے،تنہا اجنبی خواتین  کی امامت سے اجتناب کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"تكره إمامة الرجل لهن في بيت ليس معهن رجل غيره ولا محرم منه) كأخته (أو زوجته أو أمته، أما إذا كان معهن واحد ممن ذكر أو أمهن في المسجد لا) يكره، بحر"۔

(باب الإمامة، ج: 1، ص: 566،  ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

‌"إمامة ‌الرجل للمرأة جائزة إذا نوى الإمام إمامتها ولم يكن في الخلوة أما إذا كان الإمام في الخلوة فإن كان الإمام لهن أو لبعضهن محرما فإنه يجوز."

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الثالث في بيان من يصلح إماما لغيره، ج:1، ص:85، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609100137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں