بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

گھر کی تعمیرات میں بیٹے کاباپ کے ساتھ پیسے ملانا/ بچوں کا نفقہ کس پر ہے/ شادی کے موقع پر بیوی کو دیا جانے والاسونے کے سیٹ کاحکم


سوال

میری شادی کو 30سال کاعرصہ ہوچکاہے، میرے شوہر شروع سے کراچی میں رہتے ہیں اور میں اور بچے حیدرآباد میں ان کے والد کے گھر میں رہتے ہیں، ہر کچھ عرصہ بعد وہ گھر آتے رہتے ہیں، ابھی تین سال سے انہوں نے خرچہ بھی نہیں دیا، ان کے والد کا ایک گھر ہے حیدرآباد میں (والد حیات ہیں) جس میں ہم لوگ رہ رہے ہیں، یہ گھران کے والدنے خریدا ہے اور کچھ رقم میرے شوہر نے بھی ملائی تھی، لیکن یہ رقم ملاتے وقت نہ کوئی معاہدہ ہواتھا اور نہ ہی کوئی وضاحت ہوئی تھی، اب میرے شوہر کہتے ہیں کہ یہ گھرخالی کرو!یہ میرا گھر ہے،پوچھنا یہ ہے کہ:

1: کیا میرے شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ گھر خالی کروائیں؟

2: کیا بیوی کاخرچہ اور  بچوں کاخرچہ  ان کےوالد پر نہیں؟

3: انہوں نے شادی میں   مجھے ایک سونے کاسیٹ  تحفہ میں دیاتھااور قبضہ بھی دے دیاتھا، اب وہ واپس مانگ رہے ہیں، کیا یہ درست ہے؟

 

جواب

1: صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر نے اپنے والد کے ساتھ گھر کی تعمیرات میں جو پیسے ملائے تھے اگر واقعۃً اس وقت ان دونوں کے درمیان  کوئی معاہدہ  یا کوئی وضاحت نہیں ہوئی تھی ، تو سائلہ کے شوہر کا اس گھر میں کوئی حصہ نہیں ، بلکہ یہ گھر والد ہی کاشمار ہوگا اور جو رقم سائلہ کے شوہر نے گھر کی تعمیرات میں لگائی تھی وہ اس کی طرف سےاپنے والد پر تبرع اور احسان ہے، بہر حال یہ باپ بیٹے کامسئلہ ہے اور انہی کو باہم مل کر حل کرنا چاہیے، باقی سائلہ اور بچوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے خواہ اس گھر میں ٹہرائے یا دوسرے مکان میں شوہر کے لیے درست نہیں کہ اپنی بیوی بچوں کو بلا کسی شرعی وجہ کے رہائش سے بے دخل کرے۔

2: بیوی کا نفقہ اس کے شوہر پر لازم ہے، اسی طرح بچوں کاخرچہ بھی ان کے باپ پر لازم ہے، البتہ لڑکا جب بالغ ہوجائے اور کمانے پر قدرت ہوجائے، تو باپ پر اس کا نفقہ لازم نہیں اور لڑکی کا نفقہ اس کی شادی تک باپ پر لازم ہے۔

3: شادی کے موقع پر سائلہ کو اس کے شوہر نے جو سونے کا سیٹ تحفہ کے تصریح کرکےدیا تھا یا تصریح تو نہیں کی تھی مگران کے خاندان میں بری کا سونا مالکانہ طور پر دینے دا دستورہے، تو سائلہ اس سیٹ کی مالک ہوچکی تھی ، لہذا اس کے بعد سائلہ کے شوہر کو یہ  سونے کا سیٹ   واپس لینے کاکوئی حق نہیں، البتہ اگر کوئی اور صورت ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ معلوم کرلیاجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم هذا في غير الابن مع أبيه؛ لما في القنية: الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب."

(كتاب الشركة، فصل في الشركة الفاسدة، ج:4، ص:325، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً:

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر...(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا.

وفي الرد: (قوله بأنواعها) من الطعام والكسوة والسكنى، ولم أر من ذكر هنا أجرة الطبيب وثمن الأدوية، وإنما ذكروا عدم الوجوب للزوجة، نعم صرحوا بأن الأب إذا كان مريضا أو به زمانة يحتاج إلى الخدمة فعلى ابنه خادمه وكذلك الابن (قوله لطفله) هو الولد حين يسقط من بطن أمه إلى أن يحتلم، ويقال جارية، طفل، وطفلة، كذا في المغرب. وقيل أول ما يولد صبي ثم طفل ح عن النهر (قوله يعم الأنثى والجمع) أي يطلق على الأنثى كما علمته، وعلى الجمع كما في قوله تعالى {أو الطفل الذين لم يظهروا} [النور: 31] فهو مما يستوي فيه المفرد والجمع كالجنب والفلك والإمام - {واجعلنا للمتقين إماما} [الفرقان: 74]- ولا ينافيه جمعه على أطفال أيضا كما جمع إمام على أئمة أيضا فافهم.  (قوله الفقير) أي إن لم يبلغ حد الكسب، فإن بلغه كان للأب أن يؤجره أو يدفعه في حرفة ليكتسب وينفق عليه من كسبه لو كان ذكرا، بخلاف الأنثى كما قدمه في الحضانة عن المؤيدية. قال الخير الرملي: لو استغنت الأنثى بنحو خياطة وغزل يجب أن تكون نفقتها في كسبها كما هو ظاهر، ولا نقول تجب على الأب مع ذلك، إلا إذا كان لا يكفيها فتجب على الأب كفايتها بدفع القدر المعجوز عنه، ولم أره لأصحابنا. ولا ينافيه قولهم بخلاف الأنثى؛ لأن الممنوع إيجارها، ولا يلزم منه عدم إلزامها بحرفة تعلمها. اهـ أي الممنوع إيجارها للخدمة ونحوها مما فيه تسليمها للمستأجر بدليل قولهم؛ لأن المستأجر يخلو بها وذا لا يجوز في الشرع، وعليه فله دفعها لامرأة تعلمها حرفة كتطريز وخياطة مثلا...(قوله لولده الكبير إلخ) فإذا طلب من القاضي أن يفرض له النفقة على أبيه أجابه ويدفعها إليه؛ لأن ذلك حقه وله ولاية الاستيفاء ذخيرة، وعليه فلو قال له الأب: أنا أطعمك ولا أدفع إليك لا يجاب، وكذا الحكم في نفقة كل محرم بحر (قوله كأنثى مطلقا) أي ولو لم يكن بها زمانة تمنعها عن الكسب فمجرد الأنوثة عجز إلا إذا كان لها زوج فنفقتها عليه ما دامت زوجة وهل إذا نشزت عن طاعته تجب لها النفقة على أبيها محل تردد فتأمل، وتقدم أنه ليس للأب أن يؤجرها في عمل أو خدمة، وأنه لو كان لها كسب لا تجب عليه."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:612/ 614، ط: سعيد)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وأما‌‌ ما يتعلق بالمهر حالة البقاء: فهو حق المرأة، فيكون ملكاً خالصاً لها لايشاركها فيه أحد، فلها أن تتصرف فيه، كما تتصرف في سائر أموالها متى كانت أهلاً للتصرف، فلها حق إبراء الزوج منه أو هبته له".

(القسم السادس، الباب الاول، الفصل السادس، ج:9، ص:6785۔6786، ط: دار الفکر)

العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے :

"المتبرع لا يرجع ‌بما ‌تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(كتاب المداينات،ج:2،ص:226،ط: دار المعرفة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100935

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں