بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں جماعت کرنے کا حکم


سوال

مسجد گھر كے قریب ہونے كے با وجود كچھ حفاظ جو گھر پر ہی تراویح پڑھتےہیں،وہ مسجد میں عشاء كی نماز پڑھنے نہیں جاتے، بلكہ گھر میں ہی با جماعت عشاءكی نماز پڑھ كر سنتیں پڑھ كے تراویح شروع كر دیتے ہیں، اس كا شرعًا كیا حكم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ مساجد کو آباد کرنا اہلِ محلہ کے ذمے ضروری ہے،اور عشاء کی نماز مسجد میں باجماعت ادا کرنی چاہیے،مسجد چھوڑ کر عشاء کی نماز گھروں میں یا کسی اور جگہ پڑھنا اور مسجد کی جماعت چھوڑنا درست نہیں ہے،بلا عذر ایسا کرنے والے  اہلِ محلہ گناہ گار ہوں گے،باقی تراویح کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت علی الکفایہ ہےیعنی چند افراد بھی مل کر مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھ لیں تو یہ سنت ادا ہو جاۓ گی،لہذا اہل محلہ کو چاہیے کہ عشاء کی فرض نماز مسجد میں ادا کریں،پھر تراویح کی نماز جہاں چاہیں قائم  کرے ،جب کہ مسجد میں بھی تراویح کی جماعت کا اہتمام ہوتا رہے۔

صورت مسئولہ میں گھر میں  باجماعت نماز  پڑھنے سے جماعت کی فضیلت تو حاصل ہو جاۓ گی لیکن مسجد میں جماعت پڑھنےکی فضیلت سے محروم رہیں گے،لہذا بہتر یہی ہے کہ مسجد میں با جماعت نماز پڑھ کر تراویح گھر میں  شروع کی   جاۓ۔ 

فتاوی    شامی میں ہے:

"(والجماعة سنة مؤكدة للرجال)......في مسجد أو غيره.......قال في القنية: واختلف العلماء في إقامتها في البيت والأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا في الأفضلية.....(وقيل واجبة وعليه العامة) أي عامة مشايخنا وبه جزم في التحفة وغيرها. قال في البحر: وهو الراجح عند أهل المذهب."

(کتاب الصلاۃ،باب الامامہ،552/554/1،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101157

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں