میرے پاس 4 گاڑیاں ہیں، اس میں سے 2 گاڑیاں روزانہ استعمال ہوتی ہیں، جبکہ باقی 2 گاڑیاں گھر پر ہوتی ہیں، میں نے یہ دو گاڑیاں اس لئے رکھی ہیں کہ گھر کے کسی بھی فرد کو اگر اچانک باہر جانا پڑے تو گاڑی لے کر چلا جائے، باری باری چاروں گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں، دریافت طلب یہ ہے کہ کیا دو گاڑیوں پر زکات واجب ہوگی؟
جو گاڑی استعمال کی نیت سے خریدی گئی ہو، اس پر زکات واجب نہیں ہوتی، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ دونوں گاڑیوں کی زکات سائل پر واجب نہ ہوگی، البتہ مذکورہ گاڑیاں اگر سائل فروخت کرے گا، تو ان سے حاصل نقدی اگر محفوظ رہتی ہے، تو زکات کا سال مکمل ہونے پر زکات کا حساب کرتے ہوئے نقدی کو بھی اموا ل زکات میں شامل کرکے زکات ادا کرنا واجب ہوگی۔
فتاوى هنديہ میں ہے:
(وأما شروط وجوبها فمنها) ... (ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة ( كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ١ / ١٧٢، ط: دار الفكر)
الموسوعة الفقهية الكويتيةمیں ہے:
اتفق الفقهاء على أنه يشترط في زكاة مال التجارة أن يكون قد نوى عند شرائه أو تملكه أنه للتجارة، والنية المعتبرة هي ما كانت مقارنةً لدخوله في ملكه؛ لأن التجارة عمل فيحتاج إلى النية مع العمل، فلو ملكه للقنية ثم نواه للتجارة لم يصر لها، ولو ملك للتجارة ثم نواه للقنية وأن لايكون للتجارة صار للقنية، وخرج عن أن يكون محلاً للزكاة ولو عاد فنواه للتجارة لأن ترك التجارة، من قبيل التروك، والترك يكتفى فيه بالنية كالصوم. ( ٢٣ / ٢٧١)۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100556
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن