بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

گھر والوں کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا


سوال

اگر گھر والوں کو کو پتہ نہ ہو اور  گناہ سے بچنے اور اللہ کے خوف سے نکاح کر لیا جائے، گھر والوں کی اجازت کے بغیر، تو  ایسے نکاح کاکیا حکم ہے؟

جواب

  واضح  رہے کہ عاقلہ، بالغہ لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر از خود  اگر اپنا نکاح  کفو  ( کہ لڑکا دین،دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو ) میں کرتی ہے،تو ایسا نکاح   منعقد اور لازم ہوجاتا ہے، اگرچہ بغیر  عذر کے ایسا کرنا شرعاً واخلاقاًناپسندیدہ ہے اور اگر  غیر کفو میں نکاح کرتی ہے تو وہ نکاح  بھی منعقد ہو جاتا ہے، البتہ  اولیاء کو اعتراض کا حق ہوگا ، اگر  وہ اس نکاح پر رضامند نہ ہوں، توان  کو   بچہ  پیدا ہونے سے پہلے تک   عدالت  کے ذریعے نکاح فسخ کروانے کا حق ہوگا اور اگر نابالغہ  لڑکی ولی کی اجازت کے بغیر  از خود اپنا نکاح کرے، تو  وہ والد کی اجازت پر موقوف رہے گا  ،والد چاہے تو اس کو نافذ  کرسکتا ہے، اور  چاہے تو ختم بھی کرسکتا ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض. "

 (کتاب النکاح، فصل: ولایة الندب والإستحباب في النکاح، ج: 2 ص: 247، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما بيان شرائط الجواز والنفاذ فأنواع منها:

أن يكون العاقد بالغا فإن نكاح الصبي العاقل وإن كان منعقدا على أصل أصحابنا فهو غير نافذ، بل نفاذه يتوقف على إجازة وليه؛ لأن نفاذ التصرف لاشتماله على وجه المصلحة والصبي لقلة تأمله لاشتغاله باللهو واللعب لا يقف على ذلك فلا ينفذ تصرفه، بل يتوقف على إجازة وليه، فلا يتوقف على بلوغه حتى لو بلغ قبل أن يجيزه الولي لا ينفذ بالبلوغ؛ لأن العقد انعقد موقوفا على إجازة الولي ورضاه، لسقوط اعتبار رضا الصبي شرعا، وبالبلوغ زالت ولاية الولي فلا ينفذ ما لم يجزه بنفسه، وعند الشافعي: لا تنعقد تصرفات الصبي أصلا بل هي باطلة."

(كتاب النكاح، فصل بيان شرائط الجواز والنفاذ، ج: 2، ص: 233، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے: 

"قوله( ولاية ندب) أي ‌يستحب ‌للمرأة ‌تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة بحر وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة."

(كتاب النكاح، باب الولي، ج: 3، ص: 55، ط: دار الفكر بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511102047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں