زید نے زمین یا گاڑی خرید لی، خریدتے وقت دل میں یہ بات تھی کہ اگر کہیں بھی اچھا ریٹ مل جائے تو بیچ دوں گا، لیکن مستقل اس کے فروخت کرنے کے درپے نہیں ہوا، تو اب یہ مال، مالِ تجارت شمار ہوگا یا جب وہ اسے بیچنے کے لیے پیش کرے، تب وہ مالِ تجارت شمار ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر زمین یا گاڑی خریدتے وقت ہی مذکورہ نیت رکھی تھی تو یہ خریدتے ہی مالِ تجارت بن گیا، چاہے مستقل اسے بیچنے کے درپے نہ ہوا ہو۔ اب جب تک اس کے خلاف نیت نہیں ہوگی، وہ مالِ تجارت ہی رہے گا، اور اس دوران دیگر قابلِ زکاۃ اموال کی طرح اس کی زکاۃ کا بھی حکم ہوگا۔
ہاں اگر بعد میں نیت تبدیل ہوگئی، مثلاً ذاتی رہائش کی نیت کرلی تو اس کے بعد یہ مالِ تجارت نہیں رہے گا، الا یہ کہ پھر بیچ کر اس کی رقم محفوظ رکھے، یا بیچتے وقت تجارت کی نیت کرلے تو اس رقم پر زکاۃ کے احکام جاری ہوں گے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 272):
"(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل".
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144203200617
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن