بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

غریب آدمی عیدالاضحی میں ناخن اور بال کاٹے تو قربانی کا ثواب پائے گا


سوال

کیا غریب آدمی عید الاضحی میں ناخن اور بال وغیرہ کاٹنےسے قربانی کا ثواب پائے گا؟

جواب

"سنن ابي داؤد" میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے:

"أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أمرت بيوم الأضحى عيداً جعله الله عز وجل لهذه الأمة». قال الرجل: أرأيت إن لم أجد إلا مَنِیحۃ أنثى أفأضحي بها؟ قال: «لا، ‌ولكن ‌تأخذ ‌من ‌شعرك وأظفارك،  وتقص شاربك،  وتحلق عانتك، فتلك تمام أضحيتك عند الله عز وجل»."

(كتاب الضحايا، باب ماجاء فى إيجاب الأضاحي،رقم الحديث2789،ج:3،  ص:156،ط: دارابن حزم)

 ترجمہ :نبی کریمﷺ  نےارشاد فرمایا کہ: مجھے قربانی کے دن عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے اس امت کے  لیے اسے عید قرار دیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا  کہ اگر میرے پاس دودھ کے  لیے عاریتًا  دی گئی بکری کے سوا کوئی جانور نہ ہو تو کیامیں اسی بکری کی قربانی کردوں؟ آپ  ﷺ نے فرمایا: نہیں!  لیکن (قربانی کے دن)  اپنےسر کے  بال اور ناخن کاٹ لو،  اپنی  مونچھ تراش لو  اور  زیر ناف  بال  صاف کرلو،تو یہ سب اللہ عزوجل کے نزدیک تمہاری مکمل قربانی ہو جائے گی ۔

مذکورہ بالا حدیث شریف میں مذکورہ بشارت کی رو سے معلوم ہوتا ہے کہ  جو غریب شخص   قربانی کی استطاعت  نہ رکھتاہو اور عیدالاضحیٰ کے دن ناخن تراش لے اور بال کاٹ  لےتو ان شاء اللہ عزوجل  اس کو قربانی کا ثواب  ملے گا۔

"بذل المجهود فى حل سنن ابى داؤد" میں ہے:

"(قال الرجل: أرأيت إن لم أجد إلَّا منيحة) قال في "النهاية" : المنيحة أن يعطي الرجل الرجل ناقة أو شاة ينتفعُ بلبنها ويعيدها، وكذا إذا أعطى لينتفع بصوفها ووبرها زمانًا ثم يردها (أنثى) قيل: وصف منيحة بأنثى يدل على أنه قد يكون ذكرًا وإن كان فيها علامة التأنيث، كما يقال: حمامة أنثى وحمامة ذكر.(أفاضحي بها؟ قال) رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: (لا)، ولعل المراد من المنيحة ها هنا ما يمنح بها، وإنما منعه؛ لأنه لم يكن عنده شيء سواها ينتفع بها (‌ولكن ‌تأخذ ‌من ‌شعرك وأظفارك، وتقص شاربك، وتحلق عانتك، فتلك تمام أضحيتك عند الله) أي:أضحيتك تامة بنيتك الخالصة، ولك بذلك مثل ثواب الأضحية، وصيغة الخبر بمعنى الأمر."

(اول كتاب الضحايا، باب ماجاء فى إيجاب الأضاحي، ج:9، ص:533، ط:مركزالشيخ لأبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ = 2006 م)

والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144512100953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں