بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

گاڑی ادھار فروخت کرنے کے بعد ادائیگی تک ماہانہ مزید رقم کا معاہدہ کرنا


سوال

میرے پاس کچھ رقم تھی،جو میں نے  ٹرانسپورٹ میں لگائی، اور دو گاڑیاں خرید لیں ، میرے کزن نے مجھ سے کہا کہ یہ دونوں گاڑیاں  میرے حوالے کردو،میں آپ کو چالیس لاکھ روپے 18 ماہ میں ادا کروں گا،ہماری درمیان فروختگی(سیل  ایگریمنٹ) کا معاہدہ ہوا،اور کزن نے کہا کہ جب تک میں یہ رقم چالیس لاکھ ادا نہ کروں ،اس کے بدلے آپ کو ہر ماہ چالیس ہزار  روپےادا کروں گا،میں نے کوئی بات نہیں کی اور  گاڑیاں حوالے کردیں،ہمارا معاہدہ  یکم جنوری 2019ء کو ہوا،اسٹامپ پیپر ساتھ میں منسلک ہے،اس نے چالیس لاکھ میں سے 36لاکھ روپے ادا کیے، اور ہرماہ چالیس ہزار  ادا نہیں کیے، مکمل رقم 60 لاکھ  بنتی ہے، چالیس لاکھ رقم اور باقی ہر ماہ چالیس ہزار کرایہ ،میں نے 2024ء میں اس سے کہا میں نے گھر بنانا ہے،آپ رقم ادا کریں، اس نے  کہا ٹھیک ہے،میں آپ کو ادا کرتا ہوں، آپ گھر شروع کریں،جو اَب تک ادا نہیں کیے،کزن نے کہا  چالیس لاکھ  سے اوپر جو رقم بنتی   ہے،یعنی 20 لاکھ یہ سود ہے،میں ادا نہیں کرتا، میں نے رقم ٹرانسپورٹ میں لگائی،اور گاڑیاں لیں،جو یہ چلاتا رہا،مجھے صرف 20٪ رقم دینے تھی،جو ادا نہیں کی گئی،کل رقم ساٹھ لاکھ بنتی ہے،جس میں چالیس لاکھ گاڑیوں کے ادا کرنے تھےاور بیس لاکھ ہر ماہ کے حساب بنتے ہیں،یہ ہر ماہ کی رقم سود ہے یا نہیں؟اب کزن 18ماہ کے چالیس ہزار کے حساب سے ادا کرنے پر رضامند ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور اس کے کزن کے درمیان دو گاڑیوں کی فروختگی(سیل  ایگریمنٹ) کا معاہدہ  چالیس لاکھ میں ہوا،جس کی ادائیگی اٹھارہ ماہ میں کرنی تھی،پھر اس پر مزید ہر ماہ چالیس ہزار کا معاہدہ کرنا صحیح نہیں تھا،چالیس لاکھ پر مزید ہر ماہ چالیس ہزار کا مطالبہ کرنا یا ادا کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے، سائل کے کزن  پرصرف چار لاکھ کی ادائیگی لازم ہے،اس کےعلاوہ مزید رقم کا مطالبہ کرنا چاہے 18 مہینوں کا ہو یا اس سے زائد  کا ہو ناجائز اور حرام ہے۔

قرآن پاک میں ہے:

”{وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا}.“[ البقرۃ 275)

ترجمہ:”اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔“(بیان القرآن)

وفيه ايضاً:

"{یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}."(البقرة، 278۔279)

”ترجمہ:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل) نہ  کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے۔“(بيان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌كل ‌قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."

(كتاب البيوع، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج: 5، ص: 166، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما تعريفه فمبادلة المال بالمال بالتراضي كذا في الكافي وأما ركنه فنوعان أحدهما الإيجاب والقبول."

(كتاب البيوع، الباب الأول، ج: 3، ص: 2، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں