بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

جھٹکے کا گوشت مردار کے حکم میں ہے


سوال

میری رہائش  neo mancico امیریکہ کے ایک state میں ہے، میں شادی شدہ ہوں،  میں مشترکہ فیملی سسٹم میں  ہوں، ہمارا کھانا پینا اکثر گھر ہی پر ہوتا ہے اور حلال  ہوتا ہے، البتہ کبھی کبھی باہر ہوٹل سے  جھٹکے کا گوشت آتا ہے،  جو کہ ذبیحہ نہیں ہوتا، کیوں کہ وہاں بہت ہی کم مسلم ہیں، اور اللہ کا نام نہیں لیا جاتا، جسے میرے اور میری ساس کے سوا سب کھاتے ہیں،  اور  میرے بیٹے کو بھی کھلاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہاں کے مفتیوں نے اس کے حلال ہونے کا فتوی دیا ہے،  میں اپنی اولاد کو لے کر بہت پریشان ہوں،  میرا بیٹا چھ سال کا ہے، میں اس کی تربیت بہت اچھی طرح کرنا چاہتی ہوں، لیکن میرے یہاں حلال حرام کا مسئلہ ہے، میں اپنی اولاد کو اس سے کس طرح بچاؤں؟ جب بھی میں بات کروں تو بہت لڑائی ہوتی ہے، اور  میرے منع کرنے پر وہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھپ کر کھلاتے ہیں، میں نہیں چاہتی کہ میری اولاد حرام کا ایک لقمہ بھی کھائے، کبھی کبھی روکنے کی صورت میں لڑائی اتنی بڑھ جاتی ہےکہ بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے، مجھے اس مسئلہ کا حل بتائیں، اور یہ بھی بتائیں کہ کیا میں اور میری اولاد اس معاملہ میں گناہ گار  ہوں گے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی جانور کا ذبیحہ شرعا درست ہونے کے لیے کچھ شرائط ہیں  یعنی ذبح کرنے والے کا مسلمان ہونا، ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا، شرعی طریقہ پر چار رگوں (حلقوم، سانس کی نالی اور خون کی دورگوں) میں سے کم از کم تین رگوں کا کٹ جانا، اگر کسی جانور میں مذکورہ شرائط میں سے ایک بھی شرط نہیں پائی جائے، تو وہ جانور حلال نہیں ہوتا، حرام  اور مردار کے حکم ہوتا ہے، لہذا شرعی اعتبار سے ذبح کے بغیر جھٹکے کا گوشت بھی مردار اور حرام ہے، مردار کے حرام ہونے کو قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ متعدد مقامات پر ذکر کیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے:

{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (173)}[البقرة: 173]

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف حرام کیا ہے مردار کو اور خون کو (جو بہتا ہو) اور خنزیر کے گوشت کو (اسی طرح اس کے سب اجزاء کو بھی) ایسے جانور کو جو (بقصد تقرب) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر بھی جو شخص (بھوک سے بہت ہی) بیتاب ہوجاوے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ (قدر حاجت سے) تجاوز کرنے والا ہو تو اس شحص پر کچھ گناہ نہیں ہوتا واقعی اللہ تعالیٰ ہیں بڑے  غفور و رحیم۔"

دوسری جگہ فرمایا:

{حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَنْ تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ذَلِكُمْ فِسْقٌ....}[المائدة:3]

ترجمہ : "تم پر حرام کیے گئے ہیں مردار  اور خون اور خنزیر کا گوشت اور جو جانور کہ غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مرجاوے اور جو اونچے سے گر کر مرجاوے اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے اور جس کو کوئی درندہ کھانے لگے لیکن جس کو ذبح کر ڈالو  اور جو جانور پرستش گاہوں پر ذبح کیا جاوے  اور یہ کہ تقسیم کرو بذریعہ قرعہ کے تیروں کے یہ سب گناہ  ہیں۔"

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:

{إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (115)}[النحل: 115]

ترجمہ: "تم پر تو صرف مردارحرام کیا ہے اور خون کو اور خنزیر کے گوشت (وغیرہ) کو اور جس چیز کو غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو پھر جو شخص کہ بالکل بےقرار ہوجاوے بشرطیکہ طالب لذت نہ ہو اور نہ حد (ضرورت) سے تجاوز کرنے والا ہو تو اللہ تعالیٰ بخش دینے والا اور مہربانی کرنے والا ہے۔"

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ پر لازم ہے کہ وہ خود بھی  جھٹکے کا گوشت کھانے سے بچے اور حکمت وبصیرت کے ساتھ حلال غذا کھانے کی ترغیب اور حرام کھانے پر وعیدیں سنا کر  اپنے بچے اور گھر والوں کو بھی سمجھائے، اگر  اس کے بعد بھی وہ باز نہ آئے تو سائلہ پر ان کے کھانے کا کوئی گناہ نہ ہوگا، بلکہ جان بوجھ کر جھٹکے کا گوشت کھانا اور دوسرے کے کھلانے والا بڑا مجرم اور گناہ گار ہے باقی گھر والوں کا جھٹکے کے گوشت کے حلال ہونے  کے فتوے کو بعض مفتیوں کی طرف منسوب کرنا  اگر حقیقت پر مبنی ہو تو  یہ فتوی غلط ہے۔

اور آپ اپنے بچوں کو حلال کھانا کھلانے کی کوشش کریں۔

"احکام القرآن" میں ہے:

"باب تحريم ‌الميتة:قال الله تعالى: {إنما حرم عليكم ‌الميتة والدم ولحم الخنزير وما أهل به لغير الله} . قال أبو بكر: ‌الميتة في الشرع اسم للحيوان الميت غير المذكى، وقد يكون ميتة بأن يموت حتف أنفه من غير سبب لآدمي فيه، وقد يكون ميتة لسبب فعل آدمي إذا لم يكن فعله فيه على وجه الذكاة المبيحة له..... قال أصحابنا: لا يجوز الانتفاع بالميتة على وجه ولا يطعمها الكلاب والجوارح لأن ذلك ضرب من الانتفاع بها، وقد حرم الله ‌الميتة تحريما مطلقا معلقا بعينها مؤكدا به حكم الحظر فلا يجوز الانتفاع بشيء منها إلا أن يخص شيء منها بدليل يجب التسليم له."

(سورة النحل، الأية:115، ج:1، ص:130، دار أحياء التراث العربي)

وفيه أيضاّ:

"قال الله تعالى: {‌حرمت ‌عليكم ‌الميتة والدم} وقال في آخرها {إلا ما ذكيتم} [المائدة: 3] وقال: إنما {‌حرمت ‌عليكم ‌الميتة} فحرم الله الميتة مطلقا واستثنى المذكى منها وبين النبي صلى الله عليه وسلم الذكاة في المقدور على ذكاته في النحر واللبة وفي غير المقدور على ذكاته بسفح دمه فقوله عليه السلام: "أنهر الدم بما شئت". وقوله في المعراض: "إذا خزق فكل وإذا لم يخزق فلا تأكل" فلما كانت الذكاة منقسمة إلى هذين الوجهين وحكم الله بتحريم الميتة حكما عاما واستثنى منه المذكى بالصفة التي ذكرنا على لسان نبيه ولم تكن هذه الصفة موجودة في الجنين، كان محرما بظاهر الآية."

(سورة البقرة، باب ذكاة الجنين،1/ 135، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)

کفایت المفتی میں ہے:

”کفار کو مسلمان اپنے تانبے پیتل لوہے کے برتن عار بینہ یا کرایہ پر دے سکتے ہیں اور اگر مشرکین و کفار ان برتنوں میں جمعہ یا بیتہ یا خنزیر کا گوشت پکائیں تو یہ برتن دھونے سے پاک ہو جائیں گے ۔“

(کتاب الطہارۃ، تیسرا باب، ج:2، ص:326، ط: دار الاشاعت)

آپ کے مسائل اور ان کا میں ہے:

” جو حلال جانور کسی مسلمان یا کتابی نے بسم اللہ پڑھ کر ذبح کیا ہو اس کا کھانا حلال ہے، اور کسی مرتد ، دہریے کا ذبیحہ حلال نہیں اسی طرح جھٹکے کا گوشت بھی حلال نہیں ہماری معلومات کے مطابق کراچی میں جھٹکے کا گوشت نہیں ہوتا۔ نوٹ :... ذبح کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے، اگر کسی مسلمان نے جان بوجھ کر بسم اللہ نہیں پڑھی تو ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ، البتہ اگر ذبح کرنے والا مسلمان ہو اور بھولے سے بسم اللہ نہیں پڑھ سکا تو ذبیحہ جائز ہے۔“

(غیر مسلم کےذبیحہ کا حکم، ج:5، ص:469، ط: مکتبہ لدھیانوی)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144606101466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں