1- مسلمانوں کا اپنی مساجد میں غیر مسلموں کو ان کے مذہب کے مطابق عبادت کے لیے دعوت دینے کا کیا حکم ہے؟
الف۔ اگر کسی جگہ غیر مسلموں کا عبادت خانہ جل گیا ہو یا ان کا عبادت خانہ نہ ہوتب کیا حکم ہے؟
ب۔غیر مسلموں کا اپنا عبادت خانہ صحیح حالت میں موجود ہو تب کیا حکم ہے؟
ج۔اگر غیر مسلم اہلِ کتاب سے ہوں تب کیا حکم ہے؟
2- کیا غیر مسلم بوقتِ ضرورت مسلمانوں کی مساجد میں اپنی عبادت کر سکتے ہیں؟
3- کیا مساجد میں پراجیکٹرز لگا کر غیر مسلموں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہی کے لیے مدعو کرنا جائز ہے؟
1۔2۔ واضح رہے کہ مساجد صرف اللہ تعالی کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں اور کسی غیر مسلم (یہود و نصاری وغیرہ ) جس کی عبادت اللہ تعالی کے ساتھ شرک پر مشتمل ہو اس کو مسجد میں عبادت کرنے کی دعوت دینا قرآن کریم کے صریح حکم کے خلاف ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
" وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا." ﴿الجن: ١٨﴾
ترجمہ:"اور سب مساجد اللہ تعالی کی عبادت کے لیے بنائی گئی ہیں تو تم مسجدوں میں اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو مت پکارو۔"
یہود و نصاری وغیرہ جب اپنی عبادت گاہوں میں جاتے تو اپنے رب کے ساتھ شرک کرتے تھے، اسی لیے اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ وہ مسجد میں اللہ تعالی ہی کو پکاریں۔
تفسیر قرطبی میں ہے:
"كانت اليهود والنصارى إذا دخلوا كنائسهم وبيعهم أشركوا بالله، فأمر الله نبيه والمؤمنين أن يخلصوا لله الدعوة إذا دخلوا المساجد كلها."
(الجن: 18 جلد 19 ص: 22 ط: دارالکتب المصریة)
لہذا صورتِ مسئولہ میں یہود ونصاری یا دیگر غیرمسلموں کو مساجد میں عبادت کرنے کی دعوت دینا جائز نہیں ہے، چاہے ان کا اپنا عبادت خانہ موجود ہو یا نہ ہو۔
فتح الباری ابن رجب میں ہے:
"فالجمع بين فعل الصلاة التي وضعت لأجلها المساجد، بين الكفر المفعول في الكنائس في بقعة واحدة أولى بالنهي عنه، فكما أنهم لا يمكنون من فعل عباداتهم في المساجد، فكذا لا ينبغي للمسلمين أن يصلوا صلواتهم في معابد الكفار التي هي موضع كفرهم."
(کتاب الصلوۃ ، باب الصلوۃ فی البیعة جلد 3 ص: 243 ط: مکتبة الغرباء الأثریة)
3۔اسلام کی دعوت اورتعلیم حاصل کرنے کے لیے غیرمسلم ( جب کہ ان کےاعضاء اور کپڑے ظاہری طور پر پاک ہوں) مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں ،نیزپروجیکٹر کے ذریعہ غیر مسلموں کو اسلامی تعلیم دینے کی اجازت ہے ،بشرطیکہ اس میں جاندار کی تصویر یا کوئی اور شرعی خرابی نہ ہو۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى."
(کتاب الصلوۃ ، باب مایفسد الصلوۃ و مایکرہ فیها جلد 1 ص: 647 ط: دارالفکر)
الموسوعة الفقهية میں ہے:
"وقال الحنفیة : لایمنع الذمي من دخول الحرم، ولایتوقف جواز دخوله علی إذن مسلم ولو کان المسجد الحرام، یقول الجصاص في تفسیر قوله تعالیٰ : ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِكوْنَ نَجَسٌ فَلاَیَقْرَبُوْا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ﴾ یجوز للذمي دخول سائر المساجد".
( الموسوعة الفقهية ۱۷ ؍ ۱۸۹ الکویت )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144502100266
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن