بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ غیر سودی بینکوں سے متعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتوی


سوال

اسلامی بینکاری اور عام بینکاری میں کیا فرق ہے؟ نیز اسلامی بینکاری کے متعلق جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی والوں کا جو فتوی ہے، وہ بھیج دیں!

جواب

مروجہ غیرسودی بینکوں اور  روایتی بینکوں کے بہت سے  معاملات  تقریباً ایک جیسے ہیں، روایتی بینکوں میں جو ناجائز معاملات ہیں اس طرح کے معاملات مروجہ غیر سودی بینکوں (مروجہ اسلامی بینکوں) سے بھی ناجائز ہیں۔ اور یہ صرف دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن ہی نہیں بلکہ ملک کے بیشتر علماءِ کرام کا متفقہ فتوی ہے۔ 

مروجہ اسلامی بینکاری کے عدمِ جواز کی بنیادی طور پر دو وجوہات ہیں:

1- جن فقہی بنیادوں پر مذکورہ نظام قائم کیا گیا وہ بنیادیں اور اصطلاحات بھی سقم سے خالی نہیں، کئی فقہی اصطلاحات میں قطع و برید کی گئی ضعیف اور مرجوح اقوال پر اعتماد و انحصار کیا گیا بغیر ضرورت مذہبِ غیر کی جانب جانے کو مباح سمجھا گیا وغیرہ۔

2- مروجہ اسلامی بینکاری کے لیے جو فقہی بنیادیں جن شرائط کے ساتھ فراہم کی گئی تھیں عملی طور پر مروجہ اسلامی بینکاری کا نظام ان فراہم کردہ بنیادوں پرنہیں چل رہا، جس کی وجہ سے روایتی بینکاری اورمروجہ اسلامی بینکاری میں کوئی فرق اورخاص امتیاز نہیں رہا۔

اس طرح کی دیگر وجوہات کو سامنے رکھتے ہوئے علمائے کرام نے مروجہ اسلامی بینکاری کو روایتی سودی بینکاری کے مقابلے میں مسلمانوں کے حق میں زیادہ نقصان دہ سمجھا؛ اس لیے اس کے ناجائز ہونے اور اس سے بچنے کامکمل اہتمام کرنے کا فتویٰ دیا۔

یہی ہمارے ادارے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کا فتوی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے درج ذیل دوکتابوں کامطالعہ مفید ہوگا:

1: "مروجہ اسلامی بینکاری" شائع کردہ مکتبہ بینات، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

2: "غیرسودی بینکاری"، ایک منصفانہ علمی جائزہ از مفتی احمدممتاز صاحب۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200803

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں