بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

غسلِ جنابت کے لیے فکس شدہ مصنوعی دانتوں کو نکالنا ضروری نہیں ہے


سوال

اگر کوئی شخص ایسے "مصنوعی دانت" لگوالے جسے بار بار نکالنا ممکن نہ ہو یا شدید حرج کا باعث ہو، پھر دانت لگوانے کے بعد یاد آئے کہ دانت حالتِ جنابت میں لگوائے تھے، تو کیا اب جنابت سے پاکی حاصل کرنے کے لیے ان مصنوعی دانتوں کو نکال کر اس جگہ کو دھونا لازمی ہوگا جس جگہ مصنوعی دانت لگائے تھے؟ یا  صرف مصنوعی دانتوں کو ہی نکالے بغیر دھونا کافی ہے؟ اگر ان مصنوعی دانتوں کا حکم جبیرہ (پٹی) کی طرح ہے تو یہاں تو زخم نہیں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فکس شدہ "مصنوعی دانت" جن کو منہ سے نکالنا دشوار اور باعثِ حرج ہو تو ایسے دانت اصلی دانتوں کے حکم میں ہونے کی وجہ سے جسم کا حصہ شمار ہوتے ہیں، لہٰذا جنابت سے پاکی کے لیے غسل کے دوران ان ہی مصنوعی دانتوں کو دھونا کافی ہے، مصنوعی دانتوں کو نکال کر ان کے اندر کا حصہ دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ایسے مصنوعی دانت جبیرہ (پٹی) کے حکم میں نہیں ہوتے، بلکہ نکالنے میں مشقت و حرج ہونے کی وجہ سے اصلی دانتوں کے حکم میں ہوجاتے ہیں، لہٰذا جس طرح غسلِ جنابت کے لیے اصلی دانتوں کو دھونا کافی ہوتا ہے اسی طرح ان مصنوعی دانتوں کو دھونا بھی کافی ہوجاتا ہے، خواہ نیچے زخم ہو یا نہ ہو۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ويجب) أي يفرض (غسل) كل ما يمكن من البدن بلا حرج مرة كأذن و (سرة وشارب وحاجب و) أثناء (لحية) وشعر رأس ولو متبلدا لما في - {فاطهروا} [المائدة: 6]- من المبالغة (وفرج خارج) لأنه كالفم لا داخل؛ لأنه باطن، ولا تدخل أصبعها في قبلها به يفتي.  (لا) يجب (غسل ما فيه حرج كعين) وإن اكتحل بكحل نجس (وثقب انضم و) لا (داخل قلفة)  يندب هو الأصح قاله الكمال، وعلله بالحرج فسقط الإشكال. وفي المسعودي إن أمكن فسخ القلفة بلا مشقة يجب وإلا لا.

(قوله: كعين) لأن في غسلها من الحرج ما لا يخفى؛ لأنها شحم لا تقبل الماء، وقد كف بصر من تكلف له من الصحابة كابن عمر وابن عباس بحر. ومفاده عدم وجوب غسلها على الأعمى خلافًا للحانوتي حيث بناه على أن العلة أنه يورث العمى، ولهذا نقل أبو السعود عن العلامة سري الدين أن العلة الصحيحة كونه يضر وإن لم يورث العمى، فيسقط حتى عن الأعمى اهـ.

(قوله: وإن اكتحل إلخ) الظاهر أنها شرطية، وجوابها محذوف تقديره لا يجب غسلها فهو استئناف لبيان مسألة أخرى؛ لأن الغسل المذكور قبل غسل نجاسة حكمية وهذا غسل نجاسة حقيقية فلا يصح جعل إن وصلية تأمل. (قوله: وثقب انضم) قال في شرح المنية: وإن انضم الثقب بعد نزع القرط وصار بحال إن مر عليه الماء يدخله وإن غفل لا فلا بد من إمراره و لايتكلف لغير الإمرار من إدخال عود ونحوه فإن الحرج مدفوع. اهـ ... أن علة عدم وجوب غسلها الحرج: أي أن الأصل وجوب الغسل إلا أنه سقط للحرج."

(‌‌كتاب الطهارة،فرض الغسل،152/1، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا يمنع (ما على ظفر صباغ و) لا (طعام بين أسنانه) أو في سنه المجوف به يفتى. وقيل إن صلبا منع، وهو الأصح.

(قوله: به يفتى) صرح به في الخلاصة وقال: لأن الماء شيء لطيف يصل تحته غالبا اهـ ويرد عليه ما قدمناه آنفا ومفاده عدم الجواز إذا علم أنه لم يصل الماء تحته، قال في الحلية وهو أثبت.

(قوله: إن صلبا) بضم الصاد المهملة وسكون اللام وهو الشديد حلية: أي إن كان ممضوغا مضغا متأكدا، بحيث تداخلت أجزاؤه وصار له لزوجة وعلاكة كالعجين شرح المنية.

(قوله: وهو الأصح) صرح به في شرح المنية وقال لامتناع نفوذ الماء مع عدم الضرورة والحرج ا هـ. ولا يخفى أن هذا التصحيح لا ينافي ما قبله فافهم."

(‌‌كتاب الطهارة،فرض الغسل،154/1، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604100259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں