میری شادی 1982ء میں ہوئی اور میرے شوہر کا انتقال 1995ء میں ہوا،میں اپنے تین بچوں کے ساتھ اپنے جیٹھ کے گھر رہنے لگی،میرے جیٹھ نے ہی سارا خرچہ سنبھالا،شادی میں ہر عورت کو سونا ملتاہے،مجھے بھی ملا،لیکن دین کی سمجھ نہ ہونے کی وجہ سے ایک سال بھی میں نے اور میرے شوہر نے زکات اد انہیں کی،2004ء میں وراثت ملی اور 2005 ء میں ہم جیٹھ سے الگ ہوگئے،اب تقریباً دس سال سے اس سونے کا 25000زکات دے رہی ہوں،شاید زکات زیادہ بنتی ہو،شادی میں سونا ملا،اس کے بعد اتنے سالوں میں تحائف کی صورت میں مزید سونا جمع ہوا،لیکن سونے کا وزن کے بارے میں نہ پہلے اور نہ اب مجھے کچھ یاد ہےکہ کتنا تھا،ابھی میرے پاس 16.7تولہ سونا ہے،اس صورت میں زکا ت کی شرعاً ادائیگی کیسی ہوگی؟
صورت مسئولہ میں اگر سائلہ کی ملکیت میں صرف16.7 تولہ سوناہے،اس کے ساتھ بنیادی ضرورت سے زائدچاندی یا نقدی یا مال تجارت وغیرہ نہیں ہےتو سائلہ پر صرف سونے کی مقدار(16.7تولہ ) میں ڈھائی فیصد زکات دینا واجب ہے،کیوں کہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے۔
چوں کہ مذکورہ صورت میں سائلہ کو گزشتہ سالوں کی سونے کی مقدار معلوم نہیں تو اندازہ لگاکر تعیین کرےکہ گزشتہ سالوں میں سے ہر سال کتنا سونا تھا ،اگر نصاب کے بقدر سونا تھا تواس حساب سے ڈھائی فیصد زکات ادا کردےاور کوشش کرے کہ اندازہ لگاتے وقت کم اندازہ نہ لگاۓ بل کہ کچھ زیادہ ہی لگاۓتاکہ زکات ذمہ میں نہ رہ جاۓ،اوراگر سونے کی مقدارکااندازہ لگانا مشکل ہے تو اس صورت میں موجودہ مال (16.7)کے حساب سےپہلے سال کی ڈھائی فیصد زکات نکالی جاۓ،پھر ڈھائی فیصد کو منہا کرنے کے بعداگر دوسرے سال کی مالیت نصاب کے بقدر رہتی ہو تو اس کی بھی ڈھائی فیصد زکات نکالی جاۓ ،اس طرح آخری سال تک زکات کاحساب لگاکر ادا کردے ۔
اور اگر 16.7تولہ سونےکے ساتھ بنیادی ضرورت سے زائد نقدی، چاندی یامال تجارت موجود ہےتو چوں کہ مجموعی مالیت چاندی کے نصاب(ساڑھے باون تولہ) سے زائد ہے، اس لیے سونا اور دیگر اشیاء چاندی،نقدی ، مالِ تجارت سب کی مجموعی مالیت پرمذکورہ طریقہ کے مطابق ڈھائی فیصد زکات لازم ہوگی۔
نیز سائلہ نے دس سالوں کی جوزکات اد اکی ہے،اگر مذکورہ طریقہ پر عمل کرتے ہوئے ان دس سالوں میں سے ہر سال تک نصاب کے بقدرمالیت باقی رہتی ہوں،تو اس کی ڈھائی فیصد کا حساب لگایا جاۓ،اگر ڈھائی فیصد کی مقدار 25000(جوسائلہ نے ادا کیےہے)سے زیادہ بنتی ہو،تو اس کے ساتھ مزید رقم ملاکر زکات اداکی جاۓاور اگرڈھائی فیصد کی مقدار 25000سے کم بنتی ہو تو سائلہ کی زکات ادا ہوجاۓگی اور زائد اداکی گئی رقم سائلہ کی طرف سے صدقہ شمارہوگا ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة."
(کتاب الزکاۃ،7/2،ط:دار الفکر بیروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101371
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن