بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

رہاشی مکان بطور مہر دیا لیکن قبضہ نہیں دیا تو کیا حکم ہے؟


سوال

میرے والد نے جب نکاح میری والدہ سے کیا تھا تو حق مہر والدہ کو نہیں دیا تھا،پھر والد نے ایک مکان جس میں والدین رہتے تھے، والد ہ کو گفٹ کیا حق مہر  کے عوض ،لیکن والد مرتے دم تک اس مکان میں رہتے رہے۔اب والد کے انتقال کے بعد کیا یہ مکان والدہ کا حق ہے یا والد کے تمام ورثاء کا حق بنتا ہے،والد کے ورثاء میں ایک بیوہ،دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کے والد نے سائل کی والدہ کو مذکورہ مکان حق مہر کے عوض دےدیا تھا تو شرعًا مذکورہ مکان والدہ کا ہے،مذکورہ مکان والد کے ترکے میں شمار ہوکر  والد مرحوم کے تمام ورثاء میں تقسیم نہیں ہوگا۔

مذکورہ مکان کے علاوہ مرحوم کے باقی  ترکہ کی شرعی تقسیم کی صور ت یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو  اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تواسے باقی مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو72 حصوں میں تقسیم کرکے بیوہ کو 9حصے،ہر ایک بیٹے کو 14حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7حصے ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت:72/9

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
9141477777

فیصد کے اعتبار سے بیوہ 12.5فیصد،ہر ایک بیٹے کو 19.44فیصد اور ہر ایک بیٹی کو 9.72فیصدھصہ ملے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"المرأة ‌تملك ‌المهر قبل القبض ملكا تاما إذ الملك نوعان: ملك رقبة، وملك يد، وهو ملك التصرف، ولا شك أن ملك الرقبة ثابت لها قبل القبض، وكذلك ملك التصرف؛ لأنها تملك التصرف في المهر قبل القبض من كل وجه."

(كتاب النكاح، فصل في جواز و افساد نكاح اهل الذمة، ج:2، ص:313، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101573

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں