بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

گلی ڈنڈا کھیلنےکاحکم


سوال

گلی ڈنڈا کھیلنا شرعًا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:

1۔۔   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز  بات نہ ہو۔

2۔۔ اس کھیل میں کوئی دینی یا دنیوی منفعت  ہو، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے  فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

لہذاگلی ڈنڈا کھیلنےمیں اگراتنا غلونہ ہوکہ فرائض میں خلل کاباعث ہو، نیز ہارجیت پر جانبین سے پیسوں کی کوئی شرط بھی  نہ ہو اور ایسی جگہ کھیلا جائے جہاں کسی کے نقصان کا خطرہ نہ ہو تو  اس کےکھیلنے کی گنجائش ہے، تاہم اس سےاجتناب بہتر ہے؛ کیوں کہ  گلی لگنےکی صورت میں جسم کےشدید زخمی ہونےکااندیشہ ہے۔

تفسيرجلالين ميں ہے:

"{وَمِنْ النَّاس مَنْ يَشْتَرِي ‌لَهْو ‌الْحَدِيث} أَيْ مَا يُلْهِي مِنْهُ عَمَّا يَعْنِي."

(سورۂ لقمان، آیت نمبر:6،  ص:540 ، ط:دار الحديث - القاهرة)

 سنن ترمذی میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: "‌مِنْ ‌حُسْنِ ‌إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ."

(‌‌أبواب الفتن، باب كف اللسان في الفتنة، 112/5، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ "آدمی کی اسلامی خوبی یہ ہےکہ وہ مالایعنی(بےفائدہ) چیزوں کوترک کردے۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وهذا إذ لم يقامر ولم يداوم ولم يخل بواجب وإلا فحرام بالإجماع."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، 394/6، ط:سعید)

الموسوعۃالفقہیّہ میں ہے:

"الأصل في هذه المسألة هو قول النبي صلى الله عليه وسلم: كل شيء يلهو به ابن آدم فهو باطل إلا ثلاثا: رميه عن قوسه، وتأديبه فرسه، وملاعبته أهله، وذلك لأنه أفاد أن كل ما تلهى به الإنسان مما لا يفيد في العاجل والآجل فائدة دينية فهو باطل والاعتراض فيه متعين."

(‌‌الأحكام المتعلقة باللهو، ج:25، ص:337، ط:مطابع دار الصفوة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144511101126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں