بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ارادہ کیا کہ گناہ کیا تو صدقہ دوں گا، کیا حکم ہوگا؟


سوال

 میں ایک گناہ میں مبتلا رہتا تھا ایک بیان سننے کے بعد میں نے دل میں ارادہ کیا کہ اب اگر یہ گناہ دوبارہ ہوا تو میں ایک بڑی رقم 40000  روپے صدقہ کروں گا، میں نے الله سے توبہ کی اور یہ الفاظ ادا کیے کہ " مجھے معاف کردیجیے اور میری توبہ صدق دل سے ہے کیوں کہ اب میں نے گناہ کرنے کی صورت میں نفلی صدقہ دینے کا بھی ارادہ کرلیا ہے " مگر مجھ سے توبہ کے بعد بھی یہ گناہ ہوا ،سوال یہ ہے کہ

1۔کیا دعا کے  بعد یہ الفاظ قسم میں شامل ہو ں گے؟

2۔ کیا ہر دفعہ گناہ کرنے پر مجھے اصلی رقم یا قسم کا کفّارہ ادا کرنا پڑے گا؟

3۔ رقم بڑی ہے اور میں ہر دفع قسم کی رقم کے بجائے کفّارہ ادا کرنے کو ترجیح دوں گا ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے مذکورہ شرطیہ صدقہ کرنے کا جملہ زبان  سے ادا نہیں کیا،  بلکہ صرف دل میں ارادہ کیا تھا، جیسا کہ لکھا ہے تو پھر یہ منت نہیں ہے،  پھر اس کے بعد  دعا کے مذکورہ الفاظ سے بھی یہ منت یاقسم میں شمار نہیں ہوں گے ،  اور   گناہ   ہونے کی صورت میں  صدقہ کرنے کا محض ارادہ  کرنے سے گناہ کے بعد صدقہ کرنا لازم نہیں ہوتا، تاہم رقم لازم  نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلسل گناہ کا ارتکاب کرتے رہیں ،گناہ سے اجتناب کرنا بہر حال لازم اور ضروری ہے، اس کےلیے کسی متبع سنت اللہ والے سے اصلاحی تعلق قائم کریں اور ان سے اپنے امور میں مشاورت کرکے گناہ کے بچنے کا اہتمام کریں۔

سنن الترمذی میں  ہے:

"أبوهريرة رضی اللہ عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما تصدق أحد بصدقة من طيب - ولا يقبل الله إلا الطيب - إلا أخذها الرحمن بيمينه، وإن كانت تمرة تربو في كف الرحمن حتى تكون أعظم من الجبل، كما يربي أحدكم فلوه أو فصيله."

(أبواب الزکاة، باب ماجاء فی فضل الصدقة، ج:2، ص:41، رقم الحدیث:661، ط:دار الغرب الأسلامی)

ترجمہ:”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیااور اللہ پاکیزہ چیز ہی قبول کرتاہے ،تو رحمن ذات اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتاہےاگر چہ وہ ایک کھجور ہی ہو ،یہ مال صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتارہتاہے،یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہوجاتاہے،جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یا گائےکے بچے کو پالتاہے“۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركن اليمين بالله تعالى فهو اللفظ الذي يستعمل في اليمين بالله تعالى وأنه مركب من المقسم عليه والمقسم به ثم المقسم به قد يكون اسما وقد يكون صفة والاسم قد يكون مذكورا وقد يكون محذوفا والمذكور قد يكون صريحا وقد يكون كناية، أما الاسم صريحا فهو أن يذكر اسما من أسماء الله تعالى أي اسم كان سواء كان اسما خاصا لا يطلق إلا على الله - تعالى - نحو الله والرحمن أو كان يطلق على الله - تعالى - وعلى غيره كالعليم والحكيم والكريم والحليم ونحو ذلك لأن هذه الأسماء وإن كانت تطلق على الخلق ولكن تعين الخالق مرادا بدلالة القسم إذ القسم بغير الله تعالى لا يجوز فكان الظاهر أنه أراد به اسم الله تعالى حملا لكلامه على الصحة إلا أن ينوي به غير الله تعالى فلا يكون يمينا لأنه نوى ما يحتمله كلامه فيصدق في أمر بينه وبين ربه."

(کتاب الأیمان، فصل فی رکن الیمین، 3/ 5، ط: دارالکتب العلمیة)

وفیہ ایضاً:

"فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك."

(کتاب النذر، بیان رکن النذروشرائطه، 5/ 81، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"رجل أخرج الدراهم من الكيس أو من الجيب ليدفعها إلى مسكين، ثم بدا له فلم يدفع فلا شيء عليه من حيث الحكم، كذا في السراجية. لا تجوز الصدقة إلا بالقبض، وقال مجاهد: من أخرج صدقة فهو بالخيار إن شاء أمضى، وإن شاء لم يمض، وعن عطاء مثله."

(کتاب الھبة، الباب الثانی عشر فی الصدقة، ج:4، ص:408، ط:دار الفکر)

محیط برہانی میں ہے:

"قال محمد رحمه الله في «الأصل» : والصدقة بمنزلة هبة في المشاع وغير المشاع في حاجتها إلى القبض؛ لأنها تبرع كالهبة، قال: إلا أنه لا رجوع في الصدقة إذا تمت."

(کتاب الھبة والصدقة، الفصل الثانی عشر فی الصدقة، ج:6، ص:264، ط:دار الکتب العلمیة)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں