بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل میں صابن کے استعمال کا حکم


سوال

1-کیاغسل میں صابن کا استعمال ضروری ہے؟

2-صابن اعتکاف کی وجہ سے استعمال نہیں کیاگیاتوکیاغسل پرکوئی فرق پڑا؟

جواب

1۔ غسل میں صابن کااستعمال کرناضروری نہیں ، اگرجسم پر ظاہری ناپاکی لگی ہوتواسےپانی سےدھونابھی کافی ہے، تاہم مزید صفائی حاصل کرنےکےلیےصابن کااستعمال کیاجائےتودرست ہے۔

2- اعتکاف کی حالت میں غسل فرض ہوا اور صابن استعمال کیے بغیر غسل کرلیا تو صابن استعمال نہ کرنےکی وجہ سےغسل پرکوئی فرق نہیں پڑا، بشرط یہ کہ جسم پر  سے ظاہری ناپاکی ہٹادی گئی تھی۔  ملحوظ رہے کہ اعتکاف کے دوران غسلِ جمعہ یا ٹھنڈک کی غرض سے غسل کے لیے مسجد سے نکلنا درست نہیں ہے، البتہ معتکف قضاءِ حاجت کے لیے جائے اور حاجت سے فارغ ہو کر  جلدی سے اپنے جسم پر پانی ڈال لے، جتنی دیر میں وضو ہوتا ہے  اتنا مختصر وقت لگائے، اضافی وقت بالکل بھی نہ رکے تو اس کی گنجائش ہے۔ 

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"(الفصل الأول في فرائضه) وهي ثلاثة: المضمضة، والاستنشاق، وغسل جميع البدن على ما في المتون. وحد المضمضة والاستنشاق كما مر في الوضوء من الخلاصة۔"

(كتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول في فرائض الغسل، 13/1، ط:دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"ويغسل رأسه ولحيته بالخطمي وإن لم يكن فبالصابون ونحوه؛ لأنه يعمل عمله هذا إذا كان في رأسه شعر اعتبارا بحالة الحياة، كذا في التبيين فإن لم يكن فيكفيه الماء القراح، كذا في شرح الطحاوي۔"

(كتاب الصلاة، الباب الحادي والعشرون في الجنائز، الفصل الثاني في غسل الميت، 158/1، دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509102497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں