میں ایک جگہ سرکاری ملازم تھا،تقریبا 41 سال تک حکومت کی طرف سے جوتنخواہ ملتی تھی اس میں سے کچھ فیصدجبرا کاٹی جاتی تھی،اب جب ریٹائر ڈہوا تو جی پی فنڈ کی مد میں جو رقم ملی ہے وہ اس رقم سے زیادہ ہے ، کیا یہ رقم سود میں شامل ہے؟ اگر یہ سود ہے تو کیامیں اس سے کسی مسلمان رشتہ داریاغیررشتہ دارکی مدد کرسکتا ہوں؟ اوردوست کا قرضہ ادا کرسکتا ہوں ؟
اگر جی پی فنڈ کا جمع کرنا آدمی کے اختیار میں نہ ہو اور کمپنی یا ادارہ جی پی فنڈ کی مد میں پیسے کاٹے اور اصل پیسے کے بجائے زائد پیسے دے تو یہ اصل رقم حلال ہے اور اس پر اضافہ سود کے زمرے میں نہیں آتا، اس میں ملازم کا عمل دخل نہیں ہے اور یہ ملازم کے لیے عطیہ کی طرح ہے، اس کا لینا ملازم کے لیے جائز ہے۔لہذا اگر جی پی فنڈ کے لیے کٹوتی جبراً کی گئی ہے تو ملنے والی رقم سائل کے لیے استعمال کرنا جائز ہے ۔
تکملۃ البحرا لرائق میں ہے:
"(قوله بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها."
(کتاب الاجارۃ ، جلد 7، ص: 511، ط: دارالکتب العلمیہ)
جواہرالفقہ میں ہے:
"جبری پراویڈنٹ فنڈ پر جو سود کے نام پر رقم ملتی ہے ، وہ شرعا سود نہیں بلکہ اجرت( تنخواہ) ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اوراپنے استعمال میں لانا جائز ہے، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا ہے اور ذریعہ سود بنا لینے کا خطرہ بھی ، اس لیے اس سے اجتناب کیاجائے۔"
(پراویڈنٹ فنڈ پر زکوۃ اور سود کا مسئلہ، جلد ۳ ، ص:۲۵۸ ، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101562
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن