بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ میں جبری کٹوتی کی صورت میں اضافی رقم کا حکم


سوال

 میں کالج ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سندھ میں بطور لیکچرار ملازم ہوں اور میری ماہانہ تنخواہ سے جی پی فنڈ کی کٹوتی ہوتی ہے جو کہ گورنمنٹ کی پالیسی ہے، جی پی فنڈ کی کٹوتی ہر ملازم کی تنخواہ سے کی جاتی ہے اور یہ کٹوتی ہمارے اختیار میں نہیں ہے تو اس کٹوتی پر جب ملازم اپنی سروس سے ریٹائرڈ  ہوتا ہے تو گورنمنٹ کے رولز کے مطابق اس کو اضافہ یعنی انٹریسٹ دیا جاتا ہے تو شریعت کی نگاہ میں یہ اضافہ لینا کیسا ہے؟ کیا یہ سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟ دوسری وضاحت یہ کر دوں کہ انٹرسٹ ہاں یا نہ کا اختیار ہمیں ہے کہ ہم اپنی سیلری سلپ میں انٹرسیٹ اپلائیڈ  آن یا  آف کرواسکتے ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  ملازم  کی ماہانہ تنخواہ سے جو رقم کاٹی جاتی ہےچوں کہ  یہ جبری کٹوتی   ہے     تو ملازمت ختم ہونے کے بعد اس فنڈ سے ملازم  کوجتنی بھی رقم ملے گی وہ  ملازم کے  لیے حلال ہوگی،سود نہیں ہوگی ،اس کو لینا اور استعمال کرنا جائز ہوگا ۔

البحر الرائق میں ہے:

"قوله:(بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لا يملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة والمراد أنه لا يستحقها المؤجر إلا بذلك كما أشار إليه القدوري في مختصره لأنها لو كانت دينا لا يقال أنه ملكه المؤجر قبل قبضه وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر كذا في المحيط لكن ليس له بيعها قبل قبضها."

(کتاب الاجارۃ،ج:7،ص:300،ط:دار الکتاب الاسلامی)

جواہر الفقہ میں حضر ت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ اس مسئلہ سے متعلق لکھتے ہیں:

"         جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعًا سود نہیں،   بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے۔"

(ج:3،ص:257،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144511100717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں