بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

گریجویٹی اور پنشن میں ورثاء کا حق وحصہ


سوال

میرے بیٹے کا  سرکاری ملازمت کے دوران انتقال ہوگیا ہے، اب اس کے انتقال پر گریجویٹی فنڈ کے  طور پر گورنمنٹ کی طرف سے  30 لاکھ روپے ملے ہیں،  20 ہزار پینشن لگی ہے، لہذا اس میں بطورِ باپ میرا کتنا حصہ بنتا ہے؟ جب کہ اس کی والدہ کا انتقال ہوچکا ہے اور یہ رقم میری بہو کو ملی ہے، اور میرے 3 پوتے اور ایک پوتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ  ملازم کے انتقال کے بعد ادارے کی طرف  سے مرحوم کے پس ماندگان کو  امداد کے طور پر  جو رقم ملتی ہے  تو وہ جس کے نام پر جاری ہو یا ملازم نے اس فنڈ پر جس کو نامزد کیا ہو ،وہی اس کا مالک ہوگا، گریجویٹی  کی  رقم  ادارے کی طرف سے تبرّع و امداد ہوتی ہے، جس کا ایک حصہ ملازم کے ریٹائرڈ ہونے یا دوران ِ ملازمت  انتقال کرنے کی صورت میں  یک مشت ملتا ہے جسے” گریجویٹی“  کہا جاتا ہے اور اس  کا ایک حصہ ”پینشن“  کی صورت میں ماہانہ ملتا ہے،  اس   فنڈ کی مد میں ملازم کی تنخواہ سے کٹوتی نہیں ہوتی ؛ اس لیے یہ ادارے کی طرف سے مرحوم  کے  نامزد پس ماندگان کے لیے عطیہ اور انعام ہے ،لہذا   ادارہ  جس کو مالک بناکر دے گا،  وہی اس کا مالک ہوگا۔

 صورت مسئولہ میں سائل کے بیٹے کے ملازمت کے دوران انتقال ہوجانے کے بعد ادارے کی طرف سے جو اس کی بیوہ کو نامزد کرکے گریجویٹی کی رقم ملی ہے، اور اسی طرح جو ماہانہ پینشن ملے گی ، اس کی حق دار مرحوم کی بیوہ ہی ہوگی، سائل کا اس میں کوئی حق وحصہ نہیں ہوگا۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية." 

(6/759،  کتاب الفرائض، ط؛ سعید)

      امداد الفتاوی میں ہے:

”چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ سرکار کی طرف سے محض تبرع واحسان ہے،قبضہ کے بغیر مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔“

(4/343، کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ط: دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100370

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں