ایک دوست ہے ،اس کی والدہ بہت بیمار ہے، وہ اپنے سابقہ شوہر سے جو بیٹا ہے، اس کو بیہوشی کی حالت میں بہت یاد کرتی ہے، اس کے بیٹےسے رابطہ کیا گیا کہ آپ کی والدہ آپ کو بہت یاد کرتی ہے، آپ آکر اس سے ملاقات کر لو تو وہ کہتاہے، مجھے میرے والد نے ماں سے ملاقات نہ کرنے کی قسم دی تھی اور اس کے والد صاحب کا انتقال ہو چکا ہے، قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب دیں کہ بیٹے کو کیاکرنا چائیے؟
واضح رہے کہ جائز یا نیک کام پر اٹھائی گئی قسم کو پورا کرنا چاہیے، گناہ کا کام کرنے یا فرض یا واجب کو ترک کرنے پر کھائی گئی قسم پر عمل جائز نہیں ہے، اور نامناسب کام پر قسم اٹھائی ہو تو اسے بھی توڑدینا چاہیے۔
لہذاصورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نےاپنے والد کے کہنے پر جوقسم کھائی ایسی قسم مذکورہ شخص کو نہیں کھانی چاہیے تھی ،اس لیے کہ اس میں ترک تعلق اور قطع رحمی ہے،اسے چاہیے کہ اپنی قسم توڑدے یعنی اپنی والدہ سے بات کرےاور اس سے تعلقات قائم کرلے،اور توبہ استغفار بھی کرے اور قسم کے کفارہ کے طورپر دس غریبوں کو دو وقت کا کھانا کھلادے یاایک غریب کو دس دن تک دو وقت کا کھانا کھلادے ، جو بھی غریب مستحقِ زکاۃ ہو اس کو کھانا کھلا سکتے ہیں۔ یا دس غریبوں کو کپڑا دے ، سب کو ایک ایک جوڑا دے۔ کھانا اور کپڑا درمیانی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ کھانے کی جگہ دس غریبوں کو ایک ایک صدقہ فطر کی رقم بھی دیا جاسکتاہے، یا ایک ہی غریب کو دس دن تک ایک ایک صدقہ فطر کی رقم بھی دی جاسکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ومن حلف على معصية كعدم الكلام مع أبويه أو قتل فلان) وإنما قال (اليوم) لأن وجوب الحنث لا يتأتى إلا في اليمين المؤقتة. أما المطلقة فحنثه في آخر حياته، فيوصى بالكفارة بموت الحالف ويكفر عن يمينه بهلاك المحلوف عليه.قال ابن عابدين: (قوله أما المطلقة فحنثه في آخر حياته) هذا إذا كان المحلوف عليه إثباتا، أما إن كان نفيا فيتأتى الحنث في الحال بأن يكلم أبويه، وبهذا عرفت أن اليوم قيد في الثاني فقط ح (قوله في آخر حياته) الأولى أن يقول في آخر الحياة ليشمل حياة الحالف وحياة المحلوف عليه."
(كتاب الأيمان، ج:3، ص:728،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101722
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن