اگر کوئی گناہ سرزد ہو جائے اور بعد میں یہ خطرہ ہو کہ یہ گناہ نشر ہو جائے گا اور میں لوگوں کے سامنے ذلیل ہو جاؤں گا، بدنام ہو جاؤں گا تو بدنامی اور رسوائی کے ڈر سے وہ توبہ کرے اور الله سے دعا کرے کہ اے الله مجھے لوگوں کے سامنے رسوا ہونے سے بچا ،میں توبہ کرتا ہوں، اب بدنامی کہ خوف سے توبہ کرے تو اس کی یہ توبہ ٹھیک ہے؟
اگر آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے اور اللہ سے توبہ کرے كه اے اللہ مجھے لوگوں کے سامنے رسوا ہونے سے بچا اور میں نادم ہوں، اس گناہ سے توبہ کرتا ہوں،اگر وہ سچے دل سے توبہ کرےاور اس گناہ کو چھوڑ دےاور آئندہ نہ کرنے كا عہد کرے،تو اللہ سے امید ہے اس کی توبہ قبول ہوگی۔
مسند احمد میں ہے:
"عن بسر بن أرطاة القرشي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعو: اللهم أحسن عاقبتنا في الأمور كلها، وأجرنا من خزي الدنيا وعذاب الآخرة."
(حديث بسر بن أرطاة، ج: 29، ص: 171، ط: مؤسسة الرسالة)
التنویر شرح الجامع الصغیر میں ہے:
"(اللَّهم أحسن عاقبتنا في الأمور كلها) الدينية والدنيوية وهذا أعم دعاء في شموله لطلب خير الدارين (وأجرنا من خزي الدنيا) هو الذل والإهانة سمى به عذاب الدنيا وخص خزي الآخرة بقوله (وعذاب الآخرة) تبعًا لقوله تعالى ذلك لهم خزي في الدنيا ولهم في الآخرة عذاب عظيم وهذا الدعاء من جوامع الكلم وتمامه في الجامع الكبير."
(حرف الهمزة،اللام مع الهاء، 92/3، ط: مكتبة دار السلام)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن ابن عمر قال: لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يدع هؤلاء الكلمات حين يمسي وحين يصبح: اللهم إني أسألك العافية في الدنيا والآخرة اللهم إني أسألك العفو والعافية في ديني ودنياي وأهلي ومالي اللهم استر عوراتي وآمن روعاتي اللهم احفظني من بين يدي ومن خلفي وعن يميني وعن شمالي ومن فوقي وأعوذ بعظمتك أن أغتال من تحتي."
(كتاب الدعوات، باب ما يقول عند الصباح والمساء والمنام، الفصل الثاني، 741/2، ط: المكتب الإسلامي)
مرقاة المفاتیح میں ہے:
"اللهم استر عوراتي أي: عيوبي، أو امح ذنوبي (وآمن روعاتي) أي: مخوفاتي في جملة حالاتي، وإيرادهما لصيغة الجمع في هذه الرواية إشارة إلى كثرتها، قال الطيبي: العورة ما يستحيا منه ويسوء صاحبه أن يرى والروعة الفزعة."
(كتاب الدعوات، باب ما يقول عند الصباح والمساء والمنام، 1664/4، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101589
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن