بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

میت کو غسل دینے سے پہلے دی جانے والے وضو میں ہاتھ کو پہنچوں تک دھونے اور نہ دھونے سے متعلق فقہاء کی عبارتوں میں اختلاف اور اس میں قول راجح کی تعیین۔


سوال

 عام طور پر یہی بات مشہور ہے ،کہ میت کو غسل دینے  سے پہلے جو وضو دیا جاتا ہے   (جس طرح زندگی میں غسل سے پہلے  وضو کرنا   سنت ہے اس طرح میت کے غسل میں بھی سنت ہے)  اس وقت چہرے سے شروع کیا جائے اور دونوں ہاتھوں کو گٹوں تک نہیں دھویا جائے ، عقلی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ دونوں ہاتھوں کو کہنی تک دھونا  آلہ  تطہیر ( پاکی کے آلہ )ہونے کی  وجہ سے ہے اور میت کو اس آلہ  کے استعمال کرنے   کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کو وضو کروانے والے دوسرے لوگ ہوتے ہیں ،جب کہ زندہ شخص   بذات خود  وضو کرتا ہے لہذا اس کے ہاتھ کا پاک ہونا ضروری  ہے، تاکہ اس کے ذریعہ سے دوسرے اغضاء کو پاک کر سکے، متقدمین کی عبارتوں میں نہ  تو اس  مقام  پر  ہاتھ    دھونے کا استثناء ہے اور نہ  ذکر ہے، البتہ   متقدمین (  اور متاخرین میں سے  ایک جماعت  )کی عبارتوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ   میت کو اسی طرح وضودیا جائے   جس طرح  کہ  زندہ انسان   وضوء  کرتے ہیں،یعنی ہاتھ دھونے کا استثناء نہ کیا جائے،جیسا کہ  کتاب الأصل ، کتاب الحجة على اهل المدینة، شرح مختصر الطحاوي، المختصر للقدوري، ،التجريد للقدوری، المبسوط للسرخسي، تحفة الفقهاء للسمر قندي، بدائع الصنائع  للکاساني ، بدایة المبتدی للمرغینانی، مجمع البحرين،کنزالدقائقاور ملتقی الأ بحر میں بھی ہاتھوں کو گٹوں  تک دھونے کا استثناء نہیں ہے بلکہ العنایة شرح  الهدایة  اورمجمع الأنہرمیں تو  اس بات کی تصریح  موجود ہے کہ اگر  میت کو غسل سے پہلے دی جانے والے وضو   میں ہاتھوں  کو گٹوں  تک دھونا مستثنی ہو تا   تو اس کو بھی ذکر کیا جاتا   مضمضہ اور استنشاق کی طرح اور  استثناء نہ کرنا  اس بات پر   دلالت کرتی ہے  کہ وہ  مستثنی نہیں ہے    ، ناقص خیال   کے  مطابق  استثنا والا قول   سب سے پہلے صاحب محیط البرہانی نے     ذکر  کیا  ہے اور  انہوں نے منسوب کیا ہے شمس الائمه محلی رحمہ اللہ  علیہ  کی طرف  پھر المحیط البرہانی سےبہت سارے  متاخرین  نے اس کو  نقل کیا ہے ،جیسا کہ  البحر الرائق ، تبیین الحقائق، الدر المختار    ،حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح، الفتاوی الهندیة، الفتاوی التتارخانیة ،و غیر ہ میں ہے ،  تو  کیا اس صورت میں دونوں قولوں پر عمل کیا جا سکتا ہے  ؟  اور   کیا یہ کہنا کہ ( میت کے ہاتھوں  کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے  کہ  اس کو دوسرے لوگ وضو دیتے ہیں، لہذا اس کو   وضو  دیتے ہوئے ہاتھ نہیں دھوئے جائے  جبکہ زندگی میں  وضو کرنے  سے پہلے ہاتھوں کا دھونااس لیے ضروری ہے  کہ  اس کوبطور  آلہ   استعمال  کر کے اس کے ذریعہ سے دوسرے اعضاء کو پاک کیا جاسکے  ) تعلیل فی مقابلۃ النص (ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا ‌وَمَوَاضِعِ ‌الْوُضُوءِ مِنْهَا)    نہیں ہے ؟اور کیاجب  زندہ آدمی کے ہاتھ پاک ہو ،مثلاً روٹی کھانے کے بعد ہاتھ دھو لیے تھے  اور اس کے   کچھ دیر  بعد وضو کرنا چاہتاہو ں تو کیا اس کو وضو کے شروع میں ہاتھ دھونا سنت نہیں ہے  حالانکہ  اس کے ہا تھ پاک ہے؟ کیا  پھر اس میں  متا خرین کی تعلیل(کہ زندہ  آدمی خود طہارت حاصل کرتا ہے  اس  کے لیے وضو کی ابتدا میں گٹوں  تک ہاتھ دھو کر پاک کرتےہیں  ، کہ  ہاتھ آلہ طہارت ہے اور  دوسرے اغضاء کے پاک کرنے کے لیے اس کا پاک ہونا ضروری ہے ، جبکہ میت کودوسرے لوگ وضو کرواتے ہیں لہذا غسل سے پہلے  دی جانے والے وضو میں     اس کےہاتھ نہیں دھوئے  جائے   ) چل سکتی ہے  یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ    فقہ حنفی کے متون  اور متقدمین احناف   کی عبارتوں میں  میت کو غسل دینے سے پہلے جو وضوکرایا جاتا ہے  اس وضو کی ابتدا میں   ہاتھوں کو  گٹےتک دھونے کا نہ ذکر  ہےاور نہ  ہی استثناءہے  جیسا کہ امام محمؒد کی  کتاب الأصل ،  کتاب الحجة على اهل المدینة، شرح مختصر الطحاوي،المختصر للقدوري ،التجريد للقدوري اور المبسوط للسرخسي   وغیرہ(جو سائل نے سوال میں ذکر کی ہیں) میں ہے، ہدایہ کی شرح نہایہ میں مذکورہ مسئلے کے متعلق لکھا ہے   کہ    ہاتھوں کے دھونے کے استثناء   والا قول  سب سےپہلے  ہشام ابن عبداللہ  (شاگرد  امام محمد اور امام ابو یو سف  رحمہمااللہ) کی   صلاۃ الأثر نامی کتاب  میں منقول ہے    ایک  تو  ہشام ابن عبداللہ  کے متعلق   ابوبکر رازی سے منقول ہے کہ  وہ اس بات کو ناپسند کرتےتھے کہ اس پر  کتاب الأصل ہشام ابن عبداللہ    کی روایت سے پڑھی جائے یعنی یہ صاحبین کے شاگردوں  میں یہ  اتنے ثقہ نہیں جتنے کہ اَبی  سلیمان الجوزجانی اور محمد ابن سماعۃ  وغیرہ  لہذا صرف  اس قول پر   عمل در حقیقت متون اور متقدمین کے قول کے خلاف   عمل ہے  اور دوم  یہ  کہ مسئلہ نادر الروایہ   کا ہے ،سوم یہ کہ  اس مسئلے  میں متاخرین احناف رحمہم اللہ  کے  ذکر کردہ  تعلیل تام   نہیں ہے یا ان عبارات کے خلاف  ہے  جس میں بغیر کسی قید (پاکی اور ناپاکی )کے وضو کی ابتداء میں  ہاتھ دھونے کو سنت اور مستحب لکھا ہے اورہاتھوں کی پاکی کی صورت میں مذکورہ بالاتعلیل نہیں چل سکتی ہے ، اس لیےکہ پاک ہونے کی صورت  میں دوبارہ    پاک کرنا  عقلاًتحصیل حاصل ہے لہذا یہ توقیفی  سنت  جہاں زندگی میں ہےوہی موت کے بعد بھی ہوگا  ،  عنایہ شرح ہدایہ  میں  مردے   اور زندے کے وضو میں چار فرق    ( کہ مردے کے وضو میں  پہلے ہاتھوں   کو گٹوں تک نہیں دھویا جائے گا ،مضمضہ ،استنشاق  ،سرکا مسح  نہیں ہے ،غسل جنابت سے پہلے والے   وضومیں پاؤں نہیں دھوئے جاتے بلکہ غسل کے بعد پاؤں دھوئے جاتے ہیں اور  غسل میت سے پہلے والے وضو میں پاؤں دھوئے جاتے ہیں ) نقل کرنے  کے بعدلکھتے ہیں کہ   مضمضہ اوراستنشاق کے علاوہ  تینوں فرق ظاہر الروایہ نہیں  ہے اور صحیح (ظاہر الروایہ   ) یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےصرف  ان دو  (     مضمضہ اوراستنشاق)  کی استثناء فرمائی  ہیں  اور تقریباً یہی بات مجمع الانہر اور عنایہ شرح ہدایہ میں لکھی ہوئی ہے   اور غمز عیون ذوی  البصائر میں بھی  اس کو غیر ظاہر الروایہ قرار دیا ہے  اورالبحر الرائق    میں اگر چہ   ہاتھ دھونے کا استثناء  مذکور ہے لیکن اس کے ساتھ اس بات  کا ذکر  بھی ہے کہ  میت کو غسل  دینے سے پہلے وضو کروانا زندگی  کی طرح ہے  مضمضہ  اور  استنشاق  مشکل اور  متعذر ہونے کی وجہ سے چھوڑ     دئیے جائیں گے(جب کہ ہاتھ دھوناکوئی  مشکل اور  متعذر   نہیں ہے لہذا اس کو دھویا جائے گا )اور بدائع الصنائع میں یہ بات   (کہ میت کو وضوکراوانا بھی زندوں کے وضو کی  طرح ہے) بغیر ہاتھوں    کے استثناء کے  موجود ہے   ،سوال میں مذکورہ حدیث کےمتعلق بعض حضرات نے بھی فقہائے احناف رحمہم اللہ  پر یہ   اعتراض کیاہے کہ احناف  اسی حدیث پر عمل نہیں کرتے ہیں اور مضمضہ اور استنشاق  کااستثناء کرتے ہیں، اس کا جواب فقہائے احناف رحمہم اللہ کی طرف سے یہ دیا گیا ہے   کہ   سوال میں مذکورہ غسل سے متعلق   روایت   میں  دو چیزوں کا ذکر ہے ایکابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا (دائیں طرف سے شروع کرنا  اور)  اور  دوسرا   وَمَوَاضِعِ ‌الْوُضُوءِ مِنْهَا (وضو والے اعضاء  سے ابتداء کرنا ) دائیں طرف  کا تعلق  اعضاءوضو سے   نہیں ہیں (یعنی اعضاء غسل سے ہے)  یا وضو والے اعضاء سے   ہے  لیکن  وضو     کے   قرآنی اعضاء   ( اعضاء اربعہ ) ہی  مراد  ہیں ،  لہذا احناف کاقول غسل  میت سے متعلق روایت   کے  نہ تو پہلے جز " ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا " کے خلاف  ہے اور نہ ہی روایت کے دوسرے جز "‌وَمَوَاضِعِ ‌الْوُضُوءِ مِنْهَا"کے خلاف  ہے پہلے جز "ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا "کے خلاف تو اس لیے نہیں ہے کہ وضو میں بعض  اعضاء   ایک ساتھ دھوئے جاتے ہیں   انہی اعضاء میں گٹے بھی داخل ہیں اس لیے  دائیں ہاتھ  کے گٹے کو پہلے دھونا مستحب نہیں ہے        جیسا کہ عمدۃ القاری  میں  ہے اور  حدیث کے دوسرے جز "  وَمَوَاضِعِ ‌الْوُضُوءِ مِنْهَا"کے خلاف اس لیےنہیں   ہےکہ مواضع  الوضو  سے وضو کے   اعضاء مفروضہ     (چہرے کادھونا ،دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت  دھونا ،چوتھائی سر کا مسح  اور دونوں پاؤں  کو  ٹخنوں سمیت دھونا )ہی مراد   ہیں   اور  گٹے تک الگ سے دھونا ان اعضاء میں  داخل نہیں ہے  ۔

بہر حال یہ کہنا  درست نہیں کہ میت کے وضو میں ہاتھوں کا گٹوں تک  نہ دھلوانا   اور اس کا استثناء کرنا  تعلیل فی مقابلۃ النص   ہے ، تا ہم   چونکہ   میت کو  وضو کروانے کی صورت  میں  گٹوں تک ہاتھ   دھلوانا    مشکل  اور متعذر بھی نہیں ہے جیسا کہ مضمضہ اور استنشاق میں ہے  ،فقہائے احناف کی عبارات بھی    اس سلسلے میں مختلف ہیں اور دھونے والی  روایت  ظاہر الروایہ  ہے ،استثناءوالے  قول کی  عقلی دلیل پر زندگی میں ہاتھ پاک ہونے کی صورت   میں دوبارہ وضو کرتے ہوئے گٹے تک ہاتھ  دھونے کے  مستحب ہونے کی وجہ سے  اعتراض بھی آتا ہےاور   احتیاط بھی اسی(گٹے  دھونے   والی) روایت میں ہے ، لہذا اسی پر عمل کرنا چاہیے۔

کتاب الاَصل میں ہے: 

"قلت أرأيت الميت كيف يغسل قال حدثنا أبو يوسف عن أبي حنيفة عن حماد عن إبراهيم أنه قال يجرد الميت ويوضع على تخت ويطرح على عورته خرقة ثم يوضأ وضوءه للصلاة فيبدأ بميامنه ولا يمضمض ولا يستنشق ثم يغسل رأسه ولحيته بالخطمى ولا يسرح ثم يوضع على شقه الأيسر فيغسل بالماء القراح حتى ينقيه."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌‌‌باب غسل الميت من الرجال والنساء،418/1،مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية)

  الجواهر المضية فى طبقات الحنفيةمیں ہے :

"سمعت الشيخ أبا بكر محمد بن موسى، يذكر عن أبى بكر الرازى، ‌أنه ‌كان ‌يكره ‌أن ‌يقرأ ‌عليه «‌الأصل» من رواية هشام؛ لما فيه من الاضطراب، وكان يأمر أن يقرأ عليه «الأصل» من رواية أبى سليمان، أو رواية محمد بن سماعة؛ لصحة ذلك، وضبطهما ."

(هشام بن عبيد الله الرازى،569/3،ط:دار هجر للطباعة والنشرالقاهرة) 

المحیط البرهانی میں ہے :

"ومن السنة: الترتيب في الوضوء يبدأ بيديه إلى الرسغ."

( ‌‌كتاب الطهارة،الفصل الأول في الوضوء،48/1،ط:العلمیة)

 تبیین الحقائق  میں ہے :

"أن التسمية سنة في الابتداء مطلقا، فكذا ‌غسل ‌اليدين سنة مطلقا، وتقييده بالمستيقظ في الحديث لا ينافي غيره، ولهذا لم يتركه عليه السلام قط وكذا من حكى وضوءه عليه السلام." 

( ‌‌كتاب الطهارة،سنن الوضو،4/1،ط:  دار الکتاب الاسلامی)

النهایة في  شرح الهدایةمیں ہے :

"قال شمس الأئمة الحلواني رحمه الله: وعليه الناس اليوم فرق بين هذا وبين الوضوء في غسل الجنب من أربعة أوجه  أحدها: هو أن الميت لا يمضمض، ولا يستنشق بخلاف الجنب.والثاني: أن الجنب يبدأ فيغسل يديه أولا إلى الرسغ، وفي الميت لا يبدأ بغسل يديه، بل بوجهه.والثالث: أن الميت لا يمسح رأسه بخلاف الجنب، فإنه يمسح رأسه في ظاهر الرواية. والرابع :أن الجنب يغسل رجليه بعد الفراغ لا عند الوضوء، والميت يغسل رجلاه عند الوضوء، هذا كله على رواية صلاة الأثر، والصحيح أن يكون الجواب كالجواب في الجنب غير المضمضة، والاستنشاق؛ لأنه صلى الله عليه وسلم استثناهما."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب الجنائز،فصل الغسل ،122/4،المخطوطة،المکتبة الشاملة)

 المصنف - لابن أبي شيبة  میں ہے :

"حدثنا حميد بن عبد الرحمن، عن مندل، عن جعفر، عن أبي المغيرة، عن سعيد بن جبير، قال: «يوضأ الميت وضوءه للصلاة، إلا أنه لا يمضمض، ولا يستنشق»"

(كتاب الجنائز،‌‌ما أول ما يبدأ به من غسل الميت،449/2،ط: دار التاج - لبنان)

العنایة شرح الهدایةمیں ہے :

"ثم الاقتصار على المضمضة والاستنشاق في الاستثناء يدل على أن بقية الأفعال من تقديم غسل اليدين إلى الرسغ والمسح على الرأس كما كانتفي حياته هو الصحيح، وفي صلاة الأثر لا يبدأ بغسل اليدين بل يغسل الوجه ولا يمسح على الرأس."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب الجنائز،‌‌فصل في ذكر أحوال الميت في فصول،فصل في الغسل،108 /2،ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

فتاوی شامی میں  ہے :

"(قوله ويبدأ بوجهه) أي لا يغسل يديه أولا إلى الرسغين كالجنب لأن الجنب يغسل نفسه بيديه فيحتاج إلى تنظيفهما أولا والميت يغسل بيد الغاسل (قوله ويمسح رأسه) أي في الوضوء، ‌وهو ‌ظاهر ‌الرواية ‌كالجنب بحر."

(‌‌كتاب الصلاة،‌‌باب صلاة الجنازة،196/2،ط: سعید )

غمز عیون ذوي البصائر میں ہے :

"في رواية. يعني رواية ‌صلاة ‌الأثر، والصحيح ظاهر الرواية وهو أن الغاسل يمسح رأس الميت في الوضوء كالجنب. أقول: ينبغي أن يزاد على ما ذكره أن خروج النجس من البدن ينقض وضوء الحي ولا ينقض وضوء غسل الميت بل يغسل ما خرج من النجس، ويزاد على ما ذكره أيضا إن غسل الميت بالحار أفضل من البارد وأما غسل الحي فالحار والبارد سواء."

(الفن الثالث  الجمع والفرق،ما افترق فيه غسل الميت والحي،93/4،ط:دار الكتب العلمية)

هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين میں ہے:

"هشام بن عبد الله الرازي المازني السني الحنفي المتوفى سنة 201 إحدى ومائتين له‌صلاة ‌الأثر. نوادر في الفقه."

(‌‌الرازي،508/2،ط:دار إحياء التراث العربي)

كشف الظنون عن أسامي الكتب والفنونمیں ہے :

"وغير ظاهر الرواية أربعة وهي الهارونيات والجرجانيات والكيسانيات والرقيات والنوادر ثمان [تسع] وهي ‌نوادر ‌هشام ونوادر ابن سماعة ونوادر ابن رستم ونوادر داود بن رشيد ونوادر المعلا ونوادر بشر ونوادر ابن شجاع البلخي ونوادر أبي نصر ونوادر أبي سليمان.ومن مؤلفاته زيادات الزيادات والمأذون الكبير وكتاب العتاق.والمبسوط هو الأصل سمي به لأنه صنفه أولاً ثم الجامع الكبير ثم الزيادات وأملى المبسوط على أصحابه رواه عنه الجوزجاني وغيره والجامعين والسير الكبير والصغير والزيادات عبارة عن الأصول وظاهر الرواية ويعبر بغير الظاهر عن الآمالي والنوادر والجرجانيات والهارونيات والرقيات."

(‌‌الكتب المؤلفة فيه على مذهب الإمام،1283/2،ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

سنن أبي داود  میں ہے:

"حدثنا أبو كامل، حدثنا إسماعيل، حدثنا خالد، عن حفصة بنت سيرين، عن أم عطية، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهن في غسل ابنته: «‌ابدأن ‌بميامنها، ومواضع الوضوء منها."

(كتاب الجنائز،باب: كيف غسل الميت،ط:197/3،ط:المكتبة العصرية، صيدا بيروت)

 شرح سنن اَبی داود للعینی میں ہے :

"قوله: "لهن" أي: للنساء اللاتي غسلن ابنة النبي- عليه السلام. قوله: "ابدأن" بالهمزة من بدأ، وفي بعض الرواية: " أبدين" بدون الهمزة، وتكون قد سقطت لأجل التخفيف، والتليين، والميامن جمع ميمنة بمعنى أيمن، ‌ومواضع ‌الوضوء: ‌اليدان، ‌والوجه، ‌والرأس، ‌والرجلان، والحديث أخرجه الجماعة."

(كتاب الجنائز،باب: كيف غسل الميت،75/6ط:مكتبة الرشد - الرياض)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"(‌ومواضع ‌الوضوء منها) والواو لمطلق الجمع، فيقدم مواضع الوضوء المفروضة فلا مضمضة ولا استنشاق عندنا."

(كتاب الجنائز،باب غسل الميت وتكفينه ،1184/3،ط:دار الفكر، بيروت)

بذل المجهود میں ہے :

" والعجب من صاحب "العون" (1) فإنه قال: وفي هذا رد على من لم يقل باستحباب البداءة بالميامن وهم الحنفية.وتبع صاحب العون في هذا الشوكاني فإنه قال في "النيل"  قبل ذلك: وفي هذا رد على من لم يقل باستحباب البداءة بالميامن، وهم الحنفية. وهذا غلط منهما وافتراء على الحنفية ووقاحة عظيمة، فإن الكتب المعتبرة للحنفية كـ "الهداية" و"البدائع"وغيرهما متفقة طافحة بهذه المسألة، ومتفقة على استحباب البداءة بالميامن.قال في "البدائع" : ثم يوضأ وضوءه للصلاة؛ لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال للاتي غسلن ابنته: "ابدأن بميامنها ومواضع الوضوء منها"، ولأن هذا سنة الاغتسال في حالة الحياة، فكذا بعد الممات، ثم يضجعه على شقه الأيسر لتحصل البداءة بجانبه الأيمن، إذ السنة هي البداءة بالميامن على ما مر، انتهى."

(كتاب الجنائز،باب: كيف غسل الميت،420/10،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

  عمدۃ القاری  میں ہے :

"وقال النووي: واعلم أن الابتداء باليسار، وإن كان مجزئا، فهو مكروه، نص عليه الشافعي، رضي الله عنه في (الام) ، وقال ايضا: ثم اعلم أن من الأعضاء في والوضوء ما لا يستحب فيه التيامن وهو: الأذنان والكفان والخدان، بل يطهران دفعة واحدة، فإن تعذر ذلك كما في حق الأقطع ونحوه قدم اليمين ."

(كتاب الوضوء،باب التيمن في الوضوء والغسل،32/3،ط:ودار الفكربيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں