1۔کیا فرماتے ہیں مفتیان ِکرام ان مسائل کے بارے میں اگر کسی شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوجائے،بعد میں یہی شخص پکی اورسچی توبہ کرے اس پر چند لوگوں کو گواہ بھی بنائے،تو کیا اس کی یہ توبہ قبول ہوگی؟کیا و ہ اس توبہ سے دوبارہ مسلمان ہوجائے گا؟اس کی نماز جنازہ،غسل اور مسلمانوں کے قبرستان میں تدفین،ایصال ثواب اور میراث کا کیا حکم ہے؟
2۔کیا گستاخی کرنے والے شخص کو اگر لوگ قتل کردیں تو کیااسلام اس کی اجازت دیتا ہے کہ اس گستاخ شخص کے مال واسباب ،اور جائیداد کو جلا دیا جائے اور گھر ودکانیں ویران کردی جائیں؟
3۔اور کیا اس کے بچوں کو مدرسہ میں نہ چھوڑنا اور اس کے بچوں کو یہ کہنا کہ تم کافر ہو، لہٰذا تم مدرسہ سے چلے جاؤ ،کیا ایسا برتاؤ کرنا جائز ہے؟
واضح ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنا سب سے بد ترین جرم ہے،اور فقہاۓ احناف کے راجح قول کے مطابق ایسا شخص مرتد کے حکم میں ہے،البتہ اگر صدقِ دل سے توبہ کرلے اور اپنے جرم کی معافی مانگ لے تو مسلمان سمجھا جاۓ گااور قتل نہیں کیا جاۓ گا،لیکن اگر اپنی روش پر برقرار رہا اور توبہ نہیں کی توبہر حال ارتداد کی وجہ سے قتل کیا جاۓ گا،جسے نافذ کرنے کااختیار صرف اسلامی حکومت کو ہے، ہر کس وناکس کو مجرم پر حد نافذ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
1۔صورت مسئولہ میں اگر کسی شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوجائے،بعد میں یہی شخص پکی اورسچی توبہ کرے، اس پر چند لوگوں کو گواہ بھی بنائےتواس کی توبہ قبول ہوگی اور اس توبہ سے وہ دوبارہ مسلمان ہوجائے گا ، اس صورت میں اس کے ساتھ زندگی میں تمام تر معاملات میں مسلمانوں والا سلوک ہی کیا جاۓ گا،اور مرنے کے بعد بھی اس پر مسلمانوں والا حکم لاگو ہوگا،چناں چہ اس کی تجہیز،تکفین اور تدفین مسلمانوں کے طرز پر ہی کی جاۓ گی، ایصال ثواب بھی کرسکتے ہیں اور شرعی ورثاء میں اس کی میراث بھی تقسیم ہوگی۔
2۔اگر گستاخی کرنےوالا توبہ تائب ہوجائے تو اس کے مال کی ملکیت اس کی طرف لوٹ آتی ہے، لہٰذا توبہ کےبعد اسے قتل کرنا یا اس کے مال کو نقصان پہنچاناجائز نہیں ۔
3۔شریعت مطہر ہ میں کسی کافر شخص کے بچوں کےساتھ بھی توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے ، جب مذکورہ شخص نےسچے دل سے توبہ کرلی تو اس کے اولاد کو مدرسہ میں نہ چھوڑنا،اس کےبچوں کوکافر کہنا اور توہین آمیز رویہ اختیار کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟!، لہٰذا اس عمل سے اجتناب ضروری ہے جو ایسا کرے اس پر توبہ واستغفار لازم ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وقد صرح في النتف ومعين الحكام وشرح الطحاوي وحاوي الزاهدي وغيرها بأن حكمه كالمرتد ولفظ النتف من سب الرسول - صلى الله عليه وسلم - فإنه مرتد وحكمه حكم المرتد ويفعل به ما يفعل بالمرتد.
وفي الرد:(قوله وقد صرح في النتف إلخ) أقول: ورأيت في كتاب الخراج لأبي يوسف ما نصه: وأيما رجل مسلم سب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أو كذبه أو عابه أو تنقصه فقد كفر بالله تعالى وبانت منه امرأته، فإن تاب وإلا قتل، وكذلك المرأة إلا أن أبا حنيفة قال لا تقتل المرأة وتجبر على الإسلام اهـ وهكذا نقل الخير الرملي في حاشية البحر أن المسطور في كتب المذهب أنها ردة، وحكمها حكمها، ثم نقل عبارة النتف ومعين الحكام ...
وقد أسمعني بعض مشايخي رسالة حاصلها أنه لا يقتل بعد الإسلام وأن هذا هو المذهب اهـ وكذلك كتب شيخ مشايخنا الرحمتي هنا على نسخته أن مقتضى كلام الشفاء وابن أبي جمرة في شرح مختصر البخاري في حديث «إن فريضة الحج أدركت أبي» إلخ " أن مذهب أبي حنيفة والشافعي حكمه حكم المرتد، وقد علم أن المرتد تقبل توبته كما نقله هنا عن النتف وغيره... وذكر في آخر كتاب [نور العين] أن العلامة النحرير الشهير بحسام جلبي ألف رسالة في الرد على البزازي وقال في آخرها: وبالجملة قد تتبعنا كتب الحنفية فلم نجد القول بعدم قبول توبة الساب عندهم سوى ما في البزازية، وقد علمت بطلانه...وسيذكر الشارح عن المحقق المفتي أبي السعود التصريح بأن مذهب الإمام الأعظم أنه لا يقتل إذا تاب ويكتفى بتعزيره."
(كتاب الجهاد،مطلب توبة اليأس مقبولة دون إيمان اليأس،234،35/4،ط:سعيد)
تنبیہ الولاۃ والحکام میں ہے:
"قال السبكي: وحاصل المنقول عند الشافعية أنه متي لم يسلم قتل قطعا ومتي أسلم فإن كان السب قذفا فالأوجه الثلاثة:هل يقتل أو يجلد أو لا شيء، وإن كان غير قذف فلا أعرف فيه نقلا للشافعية غير قبول توبته.
ثم قال هذا ما وجدته للشافعية في ذلك، وللحنفية في قبول التوبة قريب من الشافعية، ولا يوجد للحنفية غير قبول التوبة..." أقول: فقد تحرر من ذلك بشهادة هؤلاء العدول الثقات المؤتمنين أن مذهب أبي حنيفة قبول التوبة كمذهب الشافعي.
وفي الصارم المسلول لشيخ الإسلام إبن تيمية قال: "وكذلك ذكر جماعة آخرون من اصحابنا أنه يقتل ساب النبي صلي الله عليه وسلم،ولا تقبل توبته سواء كان مسلما أو كافرا وعامة هؤلاء لما ذكروا المسئلة قالوا خلافا لإبي حنيفة والشافعي وقولهما أي أبي حنيفه والشافعي إن كان مسلما يستتاب فإن تاب وإلا قتل كالمرتد وإن كان ذميا فقال أبو حنيفة:لا ينتقض عهده... وقال أبو حنيفة والشافعي: تقبل توبته في الحالين..."
فانظر كيف صرح في هذه المواضع المتعددة مع نقله عن جماعات من أئمة مذهب الحنابلة،بأن مذهب أبي حنيفة قبول توبته،وكفي بهؤلاء الأئمة حجة في إثبات ذلك، فقد اتفق علي نقل ذلك عن الحنفية القاضي عياض،والطبري،والسبكي،وابن تيمية وأئمة مذهبه،ولم يذكر واحد منهم خلاف ذلك عن الحنفية بل يكفي في ذلك الإمام السبكي وحده،فقد قيل في حقه: لو درست المذاهب الأربعة لأملاها من صدره،وهذا كله حجة في إثبات ذلك،كما ذكرنا لو خلت كتب الحنفية عن ذكر الحكم فيها ولكنها لم تخل عن ذلك.
فقد رأيت في كتاب الخراج للإمام أبي يوسف في باب الحكم في المرتدين عن الإسلام بعد نحو ورقتين منه ما نصه: وقال أبو يوسف: "وأيما رجل مسلم سب رسول الله صلي الله عليه وسلم أو كذبه أو عابه أو تنقصه فقد كفر بالله تعالي وبانت منه إمرأته فإن تاب وإلا قتل..." وقد أشار بقوله "فإن تاب وإلا قتل" إلي أنه إن تاب سقطت عنه عقوبة الدنيا والآخرة، فلا يقتل بعد إسلامه، وإلا لم يصح قوله" وإلا قتل" فإنه علق القتل علي عدم توبته، فعلمنا أن معني قبول توبته عندنا سقوط القتل عنه في الدنيا،ونجاته من العذاب في الآخرة،إن طابق باطنه ظاهره.وهذا ايضاصريح النقول التي قدمناها،فليس قبول توبته خاصا بالنسبة إلي الآخرة مع بقاء حق الدنيا بلزوم قتله وإلا لم يبق فرق بينم مذهبنا ومذهب المالكية والحنابلة القائلين بعدم قبول توبته لأنهم متفقون علي قبولها في حق أحكام الآخرة، فقد ثبت أن العلماء رحمهم الله تعالي حيث ذكر وا القبول وعدمه في هذه المسئلة فإن مرادهم به بالنسبة إلي القتل الذي هو حكم الدنيوي وأما الحكم الأخروي فإنه علي حسن العقيدة وصدق التوبة باطنا وذلك مما يختص بعلمه علام الغيوب جل وعلا.
ورأيت في كتاب النتف الحسان لشيخ الإسلام السغدي في كتاب المرتد ما نصه: "والسابع من سب رسول الله صلي الله عليه وسلم فإنه مرتد وحكمه حكم المرتد ويفعل به ما يفعل بالمرتد" ،انتهي بحروفه. ومعلوم أن من أحكام المرتد قبول توبته وسقوط القتل عنه بها.
ورأيت في فتاوي مؤيد زاده ما نصه: "وكل من سب النبي أو أبغضه كان مرتدا."
ثم قال: "ومن سب النبي أو أبغضه كان ذلك منه ردة وحكمه حكم المرتدين." شرح الطحاوي. "قال أبو حنيفة وأصحابه من برئ من محمد أو كذب به فهو مرتد حلال الدم إلا أن يرجع." من الشفا.
وكذلك رأيت في معين الحكام معزيا إلي شرح الطحاوي ما صورته: "من سب النبي أو أبغضه كان ذلك منه ردة وحكمه حكم المرتدين."كذا نقله في منح الغفار عن معين الحكام المذكور.
وفي نور العين إصلاح جامع الفصولين عن الحاوي: "من سب النبي يكفر ولا توبة له سوي تجديد الإيمان."
فهذه النقول عن أهل المذهب صريحة في أن حكم الساب المذكور إذا تاب قبلت توبته في حق القتل، وقد منا نقول غير أهل المذهب عن مذهبنا وهي صريحة فيما ذكرنا،ولم يحك أحد منهم خلافا،فثبت اتفاق أهل المذهب علي الحكم المذكور... وهكذا في عامة المتون وكذا في الهداية والجامع الصغير وغيرهما،ولا شبهة أن الساب مرتد فيدخل في عموم المرتدين فهو مما نطقت به متون المذهب فضلا عن شروحيه وفتاويه."
(الفصل الثاني في توبته واستتابته وتحرير مذهب أبي حنيفة في ذلك،المسئلة الثالثة: في حكم تحرير الساب علي مذهب أبي حنيفة، ص:72،73،74،75،76،77،81، ط: مرکز البحوث الإسلامية، مردان)
تبیین الحقائق میں ہے:
”قال رحمه الله (ويزول ملك المرتد عن ماله زوالا موقوفا فإن أسلم عاد ملكه وإن مات أو قتل على ردته ورث كسب إسلامه وارثه المسلم بعد قضاء دين إسلامه وكسب ردته فيء بعد قضاء دين ردته) وهذا عند أبي حنيفة وعندهما لا يزول ملكه لأن تأثير الردة يظهر في إباحة دمه لا في زوال ملكه كالمحكوم عليه بالرجم والقود ولأنه مكلف فيكون كامل الأهلية وذلك ببقاء ملكه ولأنه لا يمكنه القيام بما كلف به إلا ببقاء ملكه فيبقى ملكه ضرورة التمكين وله أن الملك عبارة عن القدرة والاستيلاء وإنما يكون ذلك باعتبار العصمة وقد زالت عصمة نفسه بالردة لأنه يصير بها حربيا حتى يقتل وكذا عصمة ماله لأنه تبع لها ولأنه هالك حكما فصار كالهالك حقيقة غير أنه يدعى إلى الإسلام بالإجبار عليه.“
(کتاب السیر،باب المرتدین،ج:3،ص:275،ط:دار الکتاب الاسلامی)
احسن الفتاوی میں ہے:
مرتد کے مال کا حکم :
”سوال : ایک مسلمان عورت مرتد ہو گئی اور اسی حالت میں اس کا انتقال ہو گیا، اس کی جائیداد اس کے مسلمان بھائی کے ساتھ مشترک تھی ، اس جائیداد کے شرعی وارث
کون بنیں گے ؟ بینوا توجروا -
الجواب باسم ملهم الصواب
ارتداد کی صورت میں مرد اور عورت کے اموال کے احکام مختلف ہیں اس لئے ہرایک کا حکم الگ تحریر کیا جاتا ہے :
مرد مرتد ہو جائے تو اس کا مال اس کی ملک سے نکل جاتا ہے ، البتہ دوبارہ قبول اسلام کے بعد اس کی ملک لوٹ آتی ہے ۔اور حالت ارتداد میں قتل کر دیا گیا یا مر گیا یا دار الحرب چلا گیا تو حالت اسلام کا کمایا ہوا مال مسلمان وارثوں میں تقسیم ہوتا ہے اور حالت ارتداد کی کمائی بیت المال میں داخل کی جاتی ہے، بیت المال نہ ہونے کی صورت میں مساکین پر صدقہ کیا جاتا ہے ۔
عورت مرتد ہو جائے اور اسی حالت میں مرجائے یا دار الحرب چلی جائے تو اس کا سب مال مسلمان ورثہ پر تقسیم ہوگا، خواہ حالتِ اسلام میں کمایا ہو یا حالت ارتداد میں ۔ لهذا اس مرنے والی عورت کے ترکہ میں کافر رشتہ داروں کا کوئی حق نہیں۔“
(باب المرتد والبغاۃ،ج؛6،ص:357،ط:ایچ ایم سعید)
کفایت المفتی میں ہے:
”مرتد کے لئے توبہ کی شرائط
(سوال ) (۱) مرتد فطر می دین اسلام میں واپس آسکتا ہے یا نہیں ؟
(۲) اگر واپس آسکتا ہے تو اس کے کیا شرائط ہیں ؟
(۳) اگر کوئی شخص اپنی ملازمت کے تعلق سے ظاہر اپنا ہندو ہو جانا ظاہر کرے مگر دل یا زبان سے ہندو ہو جانے ۔کا اقرار نہ کیا ہو (جیسا کہ سی آئی ڈی پولیس کے ملازمان اکثر حسب ضرورت اپنے کو ہندو عیسائی وغیرہ ہونا دکھلاتے ہیں، اس صورت میں کوئی ثبوت عینی شہادتوں وغیرہ کا بھی اس کے خلاف رسوم یا عبادت بطور ہندوادا کرنے کا بھی نہ ہو تو اس شخص کو مسلمان ما نا چاہئے یا نہیں ؟
المستفتى - نمبر ۷۰ اسید ناظم حسین (ریاست الور ) ، ارمضان ۱۳۵۲ ۵۱ ۴ ۲۸ دسمبر ۱۹۳۳ء
(جواب (۳۷) (۱) اگر کوئی شخص مرتد ہو جائے تو وہ بھی توبہ کر کے اسلام میں واپس آسکتا ہے ۔
(۲) اس کی صورت یہ ہے کہ وہ اسلام کا کلمہ پڑھے اور سوائے اسلام کے باقی دینوں سے اپنی بیزاری کا اعلان کرے۔
(۳) جب تک یہ نہ بتایا جائے کہ اس کو کسی فعل کی بناء پر ہندو سمجھا گیا، اس کے متعلق کوئی حکم نہیں دیا جا سکتا۔ اور بہر صورت ہندو ہو جانے کے بعد بھی توبہ اور تجدید اسلام کر کے وہ شخص مسلمان ہو سکتا ہے۔ “
(کتاب الایمان والعقائد،چوتھا باب مسئلہ ارتداد،ج:1،ص:57،ط:دار الاشاعت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604101628
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن