بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

غسل کرتے وقت شک ہوجائے کہ پانی حلق تک پہنچا یا نہیں تو کیا حکم ہے ؟


سوال

 غسل کرتے وقت جب میں منہ میں پانی ڈالتا ہوں، مجھے یہ شک ہوتا ہے کہ کیا پانی پورے حلق تک پہنچا یا نہیں؟  میں کوشش کرتا ہوں کہ تین بار پانی ڈالوں اور غڑغڑاؤں، لیکن پھر بھی شک رہتا ہے کہ آیا پانی حلق تک پہنچا یا نہیں؟، میری گزارش ہے کہ آپ براہ کرم یہ وضاحت فرما دیں کہ آیا حلق تک پانی پہنچانا کیا ضروری ہے؟ اگر پانی صرف منہ تک پہنچ جائے تب بھی غسل درست ہو جاتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ فرض غسل میں منہ بھر کر کلی کرنا (جیسے وضوء میں کی جاتی ہے)، ناک میں پانی ڈالنا (جیسے وضوء  میں ڈالا جاتا ہے ) فرض ہے، اور غیر روزہ دار کے لیے  غرارہ کرنا، اور  حلق تک پانی پہنچانا  اور  ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا مسنون  ہے، فرائض غسل میں داخل نہیں،  لہذا صورت مسئولہ میں حلق تک پانی پہنچا یا نہیں پہنچا اس شک میں مبتلا ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں، کیوں کہ حلق تک پانی نہ بھی پہنچنے کی صورت میں بھی غسل ہو جائے گا۔

مصنف لابن ابی شیبۃ میں ہے:

"عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قال: حدثتني عائشة رضي اللّٰه عنها أن رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم کان إذا اغتسل من الجنابة فمضمض واستنشق ثلاثاً. وفي روایة عن عمر رضي اللّٰه عنه قال: إذا اغتسلت من الجنابة فتمضمض ثلاثاً فإنه أبلغ."

(کتاب الطهارة، باب في المضمضة والإستنشاق في الغسل، ج:1،ص:48، ط: دار الکتب العلمیة۔بیروت)

در مختار میں ہے:

"(وغسل الفم) أي استيعابه، ولذا عبر بالغسل،أو للاختصار (بمياه) ثلاثة (والأنف) ببلوغ الماء المارن (بمياه) وهما سنتان مؤكدتان مشتملتان على سنن خمس: الترتيب، والتثليث، وتجديد الماء، وفعلهما باليمنى (والمبالغة فيهما) بالغرغرة، ومجاوزة المارن (لغير الصائم) لاحتمال الفساد؛ وسر تقديمهما اعتبار أوصاف الماء؛. لأن لونه يدرك بالبصر، وطعمه بالفم، وريحه بالأنف."

(کتاب الطھارۃ، سنن الوضوء، ج:1، ص:116، ط:دار الفکر۔بیروت)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: المارن) هو ما لان من الأنف قاموس (قوله: وهما سنتان مؤكدتان) فلو تركهما أثم على الصحيح سراج. قال في الحلية: لعله محمول على ما إذا جعل الترك عادة له من غير عذر كما قالوا مثله في ترك التثليث كما يأتي."

(کتاب الطھارۃ، سنن الوضوء، ج:1، ص:116، ط:دار الفکر۔بیروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606102524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں