ایک آدمی گٹکے اور ماوے کا کاروبار کرتا ہے تو اس کی اس رقم سے قربانی کرنا کیسا ہے؟ اور جو آدمی اس کے ساتھ شریک ہوگا اس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
گٹکا ،ماوا وغیرہ مضرِّ صحت ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر ان کی خرید و فروخت سخت ممنوع ہے، جس پر قانوناً سزا بھی دی جاتی ہے، لہذا حکومتی قانون کی پاس داری اور حفظانِ صحت کا لحاظ کرتے ہوئے گٹکا اور ماوا وغیرہ کھانے اور اس کے بیچنے سے احتراز کرنا چاہیے،باقی اس کاروبار سے حاصل شدہ منافع سے قربانی کرنا جائز ہے اور جو آدمی ان کے ساتھ شریک ہوگا اس کی قربانی بھی درست ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع".
(باب بيع الفاسد، ج:5، ص:69، ط:ایچ ایم سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون. قلت: وقد سئل ابن نجيم عن بيع الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لايجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل".
(كتاب الاشربة، جلد:6، صفحہ:454، طبع:سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"
(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101291
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن