بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حالت حیض میں عمرہ کے لیے جانا


سوال

کراچی سے عمرہ  کے لیے جاتے ہوئے میں حالت حیض میں ہوں گی، مکّہ پہنچ کر وہاں 4 دِن قیام ہے مگر اُن چاروں دِنوں میں مجھے پاکی حاصل نہیں ہوگی، پھر وہاں سے مدینہ جائیں گے، وہاں 6 دِن قیام کرکے مکہ واپسی آتے ہوئے پاکی ہوگی، تو پوچھنا یہ تھا کہ کیا کراچی سے مکہ جاتے ہوئے میقات پر احرام کی نیت ضروری ہوگی یا نہیں؟ کیوں کہ اُس پورے دورے میں مُجھے عمرہ کا موقع نہیں ملے گا، ہاں مدینہ سے واپسی آکر موقع ملے گا۔ تو کیا میں مدینہ سے واپسی آتے ہوئی ذوالحلیفہ سے عمرہ کی نیت کر کے احرام میں آجاؤں؟

جواب

واضح رہے کہ جو شخص (میقات کے باہر سے) مکہ مکرمہ جا رہا ہو اس پر میقات سے پہلے پہلےاحرام باندھنا لازم ہے، لہٰذا صورت مسئولہ میں سائلہ کے لیے کراچی سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے میقات سے احرام باندھنا لازم ہے، چاہے سائلہ پاک ہوں یا نہ ہوں، البتہ حیض کی حالت میں عمرہ ادا نہیں کر سکتیں، نیز جب تک سائلہ مکمل عمرہ ادا نہیں کریں گی، اس وقت تک  احرام سے بھی نہیں نکل سکتیں، لہٰذا اگر پاکی حاصل ہوئے بغیر مکہ سے مدینے چلی گئیں تو بھی حالت احرام میں ہی رہیں گی،(اور احرام کی تمام پابندیاں لازم ہوں گی)۔اور  مدینے سے واپس مکہ آتے ہوئے نیا احرام باندھنا یا ایک اور مزید عمرہ کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اسی پہلے والے احرام کی حالت میں (اگر مکہ جاتے ہوئے پاک ہوئیں تو)عمرہ ادا کریں گی۔ اور پھر احرام کھول سکتی ہیں۔

اگر سائلہ کے لیے دس دن تک احرام باندھے رکھنا اور احرام کی پابندیوں میں رہنا مشکل ہو تو پہلے مدینے چلے جائیں، اور پھر پاک ہونے کے بعدوہاں سے مکہ آئیں اور عمرہ ادا کر لیں۔یا یہیں سے پاک ہونے کے بعد سفر شروع کریں ،ٹکٹ آگے کرالیں۔

فتاوی شامی میں ہے :

"فعن هذا قال القهستاني: ‌فلو ‌حاضت ‌قبل ‌الإحرام اغتسلت وأحرمت وشهدت جميع المناسك إلا الطواف والسعي اهـ أي لأن سعيها بدون طواف غير صحيح فافهم".

(کتاب الحج ،528/2،ط: سعید)

الدرلمختار مع ردالمحتار میں ہے:

""ثم ذكر أحكامه بـ (قوله :يمنع صلاة)  مطلقاً، ولو سجدة شكر، (وصوماً) وجماعاً ... (و) يمنع حل (دخول مسجد و) حل (الطواف) ولو بعد دخولها المسجد وشروعها فيه".

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1،ص:290،ط:سعيد)

اعلاءالسنن میں ہے:

"عن عائشة عن النبي ﷺ قال : الحائض تقضي المناسك کلها إلا الطواف بالبیت. رواه أحمد و ابن أبي شیبة".

(اعلاءالسنن،ج:10،ص323،ط:ادارۃ القران و العلوم الاسلامیۃ کراتشی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں