ایک آدمی کو چوری کی بنا پر اسلامی حکومت نے حد جاری کر کے اس کا ہاتھ کاٹ دیا ۔ آیا دوبارہ اسی ہاتھ کے کٹے ہوئے حصہ کو لگوا سکتا ہے یا نہیں؟
چوری کی وجہ سے ہاتھ کاٹنے کی جو حد ہے اس میں مقصود جسمانی ایذاء کے ساتھ عار دلانا بھی ہے، اور یہ عار دلانا اس طور پر ہےچور زندگی بھر کے لیے ہاتھ کی منفعت سے محروم ہوجائے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کے چوری کرنے کا معلوم ہو، لہذا اسی کٹے ہوئے ہاتھ کو دوبارہ چور کے حوالے کرنا اور اس کا کسی ٹیکنالوجی کے ذریعہ اس کو دوبارہ لگوانا درست نہیں۔
حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:
"ثم الحد إما قتل وهو زجر لا زجر فوقه، وإما قطع وهو إيلام شديد وتفويت قوة لا يتم الاستقلال بالمعيشة دونها طول عمره ومثو عار ظاهر أثره بمرأى الناس لا ينقضي، فان النفس إنما تتأثر من وجهين؛ النفس الواغلة في البهيمية يمنعها الايلام كالبقر. والجمل والتي فيها حب الجاه يردعه العار اللازم له اشد من الايلام، فوجب جمع هذين الوجهين في الحدود
ودون ذلك إيلام بضرب يضم معه ما فيه عار، ظهر أثره كالتغريب وعدم قبول الشهادة والتبكيت."
(الحدود، ج:2، ص:245، ط:دار الجیل)
الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:
"لا يجوز شرعا إعادة العضو المقطوع تنفيذا للحد؛ لأن في بقاء أثر الحد تحقيقا كاملا للعقوبة المقررة شرعا، ومنعا للتهاون في استيفائها، وتفاديا لمصادمة حكم الشرع في الظاهر.
بما أن القصاص قد شرع لإقامة العدل وإنصاف المجني عليه، وصون حق الحياة للمجتمع، وتوفير الأمن والاستقرار، فإنه لا يجوز إعادة عضو استؤصل تنفيذا للقصاص."
(القسم الخامس الفقه العام، الفصل الثالث: حد السرقة، ج:7، ص:5461، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100245
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن