اگرچہ شریعت میں حقِ مہر کی کوئی حد مقرر نہیں، مگر آج کل جو مہر میں لڑکے کا جائیداد میں شرعی حصّہ لڑکی کے نام کروایا جاتا ہے، (حالاں کہ وہ ابھی تک لڑکے کے والدین کی ملک ہوتا ہے، ان کی وفات پر ہی لڑکا مالک بنے گا، اور وہ وراثت ہوتی ہے، ذاتی کمائی نہیں ہوتی کہ وارثان کو محروم کرکے پرائے بندوں کو دے دیں) اسی طرح اس کے ساتھ 30 لاکھ روپے، اور بیس، پچیس تولہ سونا لڑکی کی سیکیورٹی کے نام پر بطورِ حقِ مہر لکھوایا جاتا ہے، تاکہ اس کو طلاق نہ ہو، یہ چیزیں حقِ مہر میں لکھوانا شرعًا کیسا ہے؟ اس میں لڑکے کی سیکیورٹی کا کیا ہوگا؟ اگر لڑکی خلع لے لے، یا لڑکی کا کردار غلط نکل آئے، یا لڑکی کے والدین لالچی نکل آئے اور اسے سالہا سال میکے میں بٹھا کر جائیداد ہتھیانے کے مقدمے میں لڑکے کی جوانی نگل جاتے ہیں۔ الغرض سو باتیں ہوسکتی ہیں، لڑکا تو تباہ ہوجائےگا۔
دوسرے اگر لڑکا یہ سب کچھ عندالطلب ہی لکھوادے تب بھی دینا تو فرض ہے، یہاں نہیں تو آخرت میں تو اس بارے میں ضرور پوچھ ہوگی، تو لڑکی کی سیکیورٹی کے نام پر ناقابل ادا حقِ مہر لکھوانا، اور لڑکے کی دنیا و آخرت تباہ کرنا کونسی حکمت ہے؟ بعض معاشروں میں یہ گندی رسم بہت پھیل چکی ہ، عنقریب یورپ اور دیگر مغربی ممالک کی طرح لوگ شادی کرنے سے ڈریں گے اور اس رسمِ بد کی وجہ سے ناجائز راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، ہمارے علاقوں میں پانچ دس تولہ سونا اور 5 لاکھ روپے تک تو کوئی شادی ہوتی ہی نہیں۔
برائے مہربانی اس پر مفصل فتویٰ عنایت فرما دیں، تو عنایت ہوگی۔
واضح رہے کہ شرعًا مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم مقرر ہے، دس درہم کا مطلب دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے، (جس کی مقدار موجودہ اوزان کےحساب سے 30؍ گرام 618؍ ملی گرام چاندی بنتی ہے)، جب کہ اس کی زیادہ سے زیادہ مقدار کے بارے میں شرعًا کوئی تحدید نہیں ہے، چناں چہ فریقین کی باہمی رضامندی سے مہر کی جو بھی مقدار مقرر کرلی جائے درست ہے، تاہم مہر کے زیادہ مقرر کرنے کے پیچھے اگر دکھاوے کا جذبہ کارفرما ہو، یا پھر عرف و معاشرہ کے پیشِ نظر مجبوراً مہر اس قدر زیادہ مقرر کی جائے کہ لڑکا اس کی ادائیگی کی قدرت و استطاعت نہ رکھتاہو تو ایسی صورت میں مہر زیادہ مقرر کرنا شرعًا و اخلاقًا ہرگز درست نہیں ہے، کیوں کہ یہ ایک محض دکھلاوے کی کاغذی کاروائی ہوکر رہ جاتی ہے، اور ادائیگی کی نوبت کبھی نہیں آتی، بالآخر یا تو شوہر مہر ادا کیے بغیر ہی اس کا بوجھ لےکر دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے یا پھر وہ مہر معاف کرانے پر مجبور ہوجاتا ہے، اسی طرح مہر کے معاملہ میں لڑکی والوں کی جانب سے مہر زیادہ مقرر کروانا بھی درست نہیں ہے، بلکہ شریعت نے مہر کے معاملہ میں یُسر و سہولت کا حکم دیا ہے، اور مہر کے متوسط و معتدل ہونے کو ازدواجی رشتے کی خیریت اور اس کی بقاء کا باعث قرار دیا ہے۔ حدیث شریف میں ہے:
"عن عائشة قالت: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أعظم النكاح بركة أيسره مؤنة»."
(مشكاة المصابيح، کتاب النکاح، الفصل الثالث، رقم الحدیث:3097، ج:2، ص:930، ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں سب سے کم مشقت (کم خرچہ اور تکلف نہ) ہو ۔“
اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے:
"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي."
(مشكاة المصابيح، کتاب النکاح،باب الصداق،الفصل الثاني، رقم الحدیث:3204، ج:2، ص:958،ط:المكتب الإسلامي بيروت)
ترجمہ: ”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مہروں میں زیادتی مت کرو، کیوں کہ اگر یہ دنیا میں عزت کی بات یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو سب سے زیادہ اس کے مستحق جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تھے، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی بیوی کا اور اسی طرح کسی بیٹی کا مہر بارہ اوقیہ سے زیادہ نہیں تھا۔“
لہٰذا مہر نہ تو اس قدر کم ہو کہ رشتۂ نکاح کی عظمت اور عورت کی خاندانی حیثیت، وجاہت، عزت و تکریم کو بالکل ہی پسِ پُشت ڈال دیا جائے، نہ ہی بہت زیادہ ہو کہ لڑکا اس کی ادائیگی سے عاجز ہو، جس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں باہمی موافقت نہیں رہتی اور نکاح کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہوتے، نہ تو عورت کی عزت رہتی ہے اور نہ ہی اس کے خاندان کی، بلکہ مہر کی زیادتی کی وجہ سے بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں بھی کمی کی جاتی ہے، اور مرد طلاق اس لیے نہیں دیتے کہ مہر زیادہ ہے، لہٰذا مہر کی کثرت بجائے اس کے کہ عورت کی مصلحت کا سبب ہوتا، بلکہ الٹا اس کی تکلیف کا باعث بن جاتا ہے، کثرتِ مہر کی یہ خرابیاں اس وقت ہوتی ہیں جب لڑکی والوں کے مطالبہ پر مہر زیادہ مقرر کی جائے اور لڑکا اس کی ادائیگی نہ کرسکتاہو، ہاں اگر مرد پر خوف خدا غالب ہو، حقوق العباد سے وہ سبکدوش ہونا چاہے اور ادائیگی کا ارادہ کرے تو اس وقت یہ مصیبت پیش آتی ہے کہ اتنی مقدار کا ادا کرنا اس کے تحمل سے زیادہ ہوتا ہے، تو اس پر فکر اور تردد (پریشانی) کا بڑا بار پڑتا ہے اور کما کما کر ادا کرتا رہتاہے، مگر زیادہ مقدار ہونے کی وجہ سے وہ ادا نہیں ہوتا، اور وہ طرح طرح کی تنگی برداشت کرتا ہے، پھر اس سے دل میں تنگی اور پریشانی ہوتی ہے، چوں کہ ان تمام تکالیف کا سبب وہ عورت ہے، اس لئے اس کے نتیجہ میں اس مرد کے دل میں اس سے انقباض (دل کی تنگی) اور پھر انقباض سے نفرت پھر دشمنی پیدا ہو جاتی ہے، جس کا سبب مہر کی کثرت ہوتی ہے۔ جیساکہ حدیث مبارک میں ہے:
"تياسروا في الصداق، فإن الرجل ليعطى المرأة حتى يبقى ذلك في نفسه عليها حسيكة."
(کنز العمال،حرف النون من قسم الأقوال وفيه كتاب النكاح، الباب الرابع، الفصل الثالث في الصداق، ج:16، ص:324، رقم الحدیث:44731، ط:مؤسسة الرسالة بیروت)
ترجمہ: ”یعنی مہر کے اندر آسانی اختیار کرو اس لیے کہ مرد عورت کو زیادہ مہر دے بیٹھتا ہے حتیٰ کہ اس دینے سے اس کے نفس کے اندر عورت کےلیے نفرت اور دشمنی پیدا ہو جاتی ہے۔“
لہٰذا ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ مہر کی زیادتی جو کہ بظاہر لڑکی کی حفاظت اور سیکیورٹی کےلیے ہوتی ہے بعض مرتبہ خود لڑکی کےلیے تکلیف و پریشانی کا باعث بنتی ہے، چہ جائے کہ وہ لڑکی کی حفاظت اور سیکیورٹی کا فائدہ دے، خواہ لڑکی کی چال چلن، گفتار و کردار درست ہو یا غلط، یا لڑکی والے اچھے نہ ہوں، پریشانی لڑکی کو ہی اٹھانی پڑتی ہے۔
رہی یہ بات کہ ”مہر کی زیادتی کی وجہ سے لڑکے کی دنیا و آخرت تباہ ہوجاتی ہے“ تو جاننا چاہیے کہ حقیقت اس طرح نہیں ہے، اس لیے کہ مہر کی زیادتی کے باوجود اگر میاں بیوی کے تعلقات اچھے ہو تو نوبت لڑکے کی تباہی تک نہیں پہنچتی، اور اگر ان کے تعلقات اچھے نہ ہو تو جب تک لڑکا زمامِ طلاق تھامے رکھے مہر ایک حد تک اس کےلیے محفوظ رہتا ہے، کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ لڑکی خلع لینے پر مجبور ہوجائے، یا پھر پیش آنے والے تمام تکالیف کا سامنا کرتی رہے اور اسے سہتی رہے، اس کے بغیر اس کےلیے کوئی اور چارہ کار نہیں ہوتا، ان سب پریشانی کی وجہ مہر کی زیادتی ہوتی ہے۔
الغرض بلا وجہ مہر زیادہ مقرر کرنا نہ تو شرعًا و اخلاقاً پسندیدہ عمل ہے اور نہ ہی اس سے لڑکی اور اس کے خاندان کی عزت و توقیر باقی رہتی ہے، نتیجتًہ لڑکا اور لڑکی دونوں کی زندگی بجائے سنورنے کے اجیرن ہوجاتی ہے۔ لہٰذا مہر معتدل و متوسط ہی ہونی چاہیے، اس میں بھی بہتر یہ ہے کہ مہرِ فاطمی مقرر کی جائے۔
اسی طرح یاد رہے کہ لڑکے کا جائیداد میں سے شرعی حصّہ بطورِ حقِ مہر لکھوانا شرعًا درست نہیں ہے، کیوں کہ جب تک مورث حیات ہے لڑکا اس کامالک نہیں ہوتا، بسا اوقات لڑکے کی وفات اپنے مورث کی زندگی میں ہی ہوجاتی، البتہ اگر بطورِ احسان مورث خود اس کی ذمّہ داری لے لے تو شرعًا درست ہوگا، اور اس کی ادائیگی اسی کے ذمّہ ہوگا۔ نیز مہر عورت کا حق ہے، اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر اس کے والدین کو مہر سے کسی بھی قسم کا فائدہ اٹھانے کی ہرگز اجازت نہیں ہے، لہٰذا مہر زیادہ مقرر کرکے اپنی بچی یا داماد کو پریشانی میں دھکیلنا عقل مندی کی بات نہیں ہے۔
فیض القدیر میں ہے:
"(خير الصداق أيسره) أي أقله لدلالته على يمن المرأة وبركتها ولهذا كان عمر ينهى عن المغالاة في المهر ويقول: ما تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا زوج بناته بأكثر من ثنتي عشرة أوقية فلو كانت مكرمة لكان أحقكم بها اه."
(حرف الخاء، ج:3، ص:474، رقم الحديث: 4020، ط:المكتبة التجارية الكبرى مصر)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ولو تزوجها على بيت بعينه فلها هكذا في شرح الطحاوي وفي المنتقى قال محمد قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى -: إذا تزوج امرأة على ما له من الحق في هذه الدار قال: أفرض لها مهر المثل لا أجاوز به قيمة الدار وفي قولنا لها ما كان له من الحق في الدار لا غير وقال: لها مهر المثل لا غير إذا بلغ ذلك عشرة، كذا في المحيط ولو تزوج على نصيبه من هذه الدار قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - لها الخيار إن شاءت أخذت النصيب، وإن شاءت أخذت مهر مثلها لا يزاد على قيمة الدار، وإن كان مهر مثلها أكثر وعلى قول صاحبيه - رحمهما الله تعالى - لها النصيب من الدار إن كان النصيب يساوي عشرة دراهم."
(کتاب النکاح، الباب السابع في المهر، الفصل الخامس، ج:1، ص:310، ط:رشيدية كوئته)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603101004
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن