بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حدیث: اللہ تعالی دو کاموں (جوانی میں عبادت، ٹھنڈے پانی سے وضو) سے بہت خوش ہوتا ہے کی تحقیق


سوال

 اللہ تعالی دو کاموں سے بہت خوش ہوتا ہے : ایک جوانی میں عبادت اور دوسرا ٹھنڈے پانی سے وضو ۔

کیا یہ حدیث ہے؟  اس کی تحقیق درکار ہے۔

جواب

تلاشِ بسیار کے باوجود ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں مل سکی کہ جس میں مذکورہ دو کاموں پر خدا تعالي کے بہت خوش ہونے کا تذکرہ صراحت کے ساتھ  پایا جاتا ہو۔

البتہ حدیث مبارکہ میں سات افراد کے بارے میں یہ  فضیلت آئی ہے کہ:’’ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں  اپنے سایہ میں جگہ عطا  فرمائیں گے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے اپنی  جوانی  میں اللہ تعالیٰ کی عبادت  کی ہو‘‘ تو شاید کہ اسی فضيلت كو  جوانی کی عبادت پر خداتعالي کے بہت خوش ہونے سے تعبیر کردیا گیا ہے ۔

’’صحیح بخاری ‘‘میں ہے :

" عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: سبعة يظلهم الله في ظله، يوم لا ظل إلا ظله، الإمام العادل، وشاب نشأ في عبادة ربه، ورجل قلبه معلق في المساجد، ورجلان تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه، ورجل طلبته امرأة ذات منصب وجمال، فقال: إني أخاف الله، ورجل تصدق أخفى حتى لا تعلم شماله ما تنفق يمينه، ورجل ذكر الله خاليا ففاضت عيناه. "

(صحيح البخاري، بَاب مَنْ جَلَسَ فِي الْمَسْجِدِ يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ وَفَضْلِ الْمَسَاجِدِ، (1/ 133) برقم (660)، ط/  دار طوق النجاة)

نیز   ٹھنڈے پانی سے وضو  کرکے نماز پڑھنے سے  متعلق بھی فضیلت ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہےکہ :

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! بلاشبہ دو شخصوں کو دیکھ کر اللہ تعالی خوش ہوتا ہے، ایک وہ شخص جو سرد رات میں اپنے بستر اپنی چادر اور اپنے لحاف کو چھوڑکر اپنے گھروالوں کے درمیان سے نکل کر اٹھتا ہے، وضو کرتا ہے پھر نماز کے لیے کھڑا ہوجاتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے بندے کواس عمل پر کس چیز نے ابھارا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اے ہمارے ربّ! تیری بارگاہ سے ثواب حاصل کرنے کی امید اور تیرے عذاب کےخوف نے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ جس چیز کی اس نے امید کی ہے میں نے وہ چیز اس کو عطا کردی اور جس چیز سے یہ ڈر رہا ہے میں نے اسے اس (عذاب) سے امن دےدیا ہے۔ دوسرا وہ شخص جو مجاہدین کی جماعت میں ہو پس وہ جانتا ہو کہ میدان جنگ سے بھاگنے میں اس پر کیا گناہ ہے اور وہ اس ثواب کا بھی علم رکھتا ہو جو اللہ کے پاس ہے ،پس وہ قتال کرتا ہے، یہاں تک کہ شہید ہوجاتا ہے،تو اللہ تعالی فرشتوں سے فرماتا ہے: میرے بندے کو اس عمل پر کس چیز نے ابھارا ہے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اے ہمارے ربّ! تیری بارگاہ سے ثواب حاصل کرنے کی امید اور تیرے عذاب کےخوف نے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:میں تم کو گواہ بناتا ہوں کہ جس چیز کی اس نے امید کی ہے میں نے وہ چیز اس کو عطا کردی اور جس چیز سے یہ ڈر رہا ہے میں نے اسے اس (عذاب) سے امن دے دیا ہے‘‘۔

’’المعجم الکبیر ‘‘للطبرانی میں ہے: 

" عَنْ عَبْدِ اللهِ ... أَلَا إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَضْحَكُ إِلَى رَجُلَيْنِ رَجُلٍ قَامَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ مِنْ فِرَاشِهِ وَلِحَافِهِ وَدِثَارِهِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ قَامَ إِلَى صَلَاةٍ، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَلَائِكَتِهِ: مَا حَمَلَ عَبْدِي هَذَا عَلَى مَا صَنَعَ؟ فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا رَجَاءَ مَا عِنْدَكَ، وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدَكَ، فَيَقُولُ: فَإِنِّي قَدْ أَعْطَيْتُهُ مَا رَجَا وَأَمَّنْتُهُ مِمَّا خَافَ، وَرَجُلٍ كَانَ فِي فِئَةٍ فَعَلِمَ مَا لَهُ فِي الْفِرَارِ، وَعَلِمَ مَا لَهُ عِنْدَ اللهِ، فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ فَيَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ: مَا حَمَلَ عَبْدِي هَذَا عَلَى مَا صَنَعَ؟، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا رَجَاءَ مَا عِنْدَكَ، وَشَفَقَةً مِمَّا عِنْدَكَ، فَيَقُولُ: فَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَعْطَيْتُهُ مَا رَجَا وَأَمَّنْتُهُ مِمَّا خَافَ، أَوْ كَلِمَةً شَبِيهَةً بِهَا. "

(المعجم الكبير، (9/ 101) برقم (8532)، ط/ مكتبة ابن تيمية - القاهرة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144205200627

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں